پاکستان میں وزارتِ داخلہ نے جمعیت علماء اسلام (ف) کی ذیلی تنطیم انصار الاسلام پر پابندی عائد کرتے ہوئے چاروں صوبوں کو تنظیم کے خلاف کارروائی کی ہدایت کر دی ہے۔
وزارتِ داخلہ نے جمعیت علماء اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی عائد کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے، جب کہ چاروں صوبوں کو ہدایت دی ہے کہ انصار الاسلام کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انصار الاسلام کے کارکنوں کے اسلام آباد داخلے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ انصار الاسلام جمعیت علما اسلام (ف) کے عسکری ونگ کے طور پر کام کر رہی ہے، جب کہ آئین کے آرٹیکل 256 کے تحت پاکستان میں کسی عسکری تنظیم کو سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انصار الاسلام ہے کیا؟
جمعیت علماء اسلام کے مطابق، جے یو آئی (ف) کے آئین میں انصار الاسلام کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ ہے جس کا کام فقط انتظام و انصرام کی ذمہ داریاں نبھانا ہے۔ یہ جمعیت کے ماتحت اور اس کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ ان کا بنیادی کام جمعیت کی جانب سے منعقد کیے جانے والے جلسے، جلوسوں اور کانفرنسز میں سیکورٹی کے فرائض سرانجام دینا ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے آئین کی شق نمبر 26 کے مطابق، ہر مسلمان جو نماز اور روزے کا پابند ہو وہ انصار الاسلام کا رکن بن سکتا ہے۔ ان رضاکاروں کی وردی کا رنگ خاکی ہوتا ہے، جب کہ کالے رنگ کے بند جوتے پہنے ان نوجوانوں کو ایک بیج بھی دیا جاتا ہے جس پر ان کا عہدہ اور حلقہ نمبر درج ہوتا ہے۔
جے یو آئی کے مطابق، یہ تنظیم برسوں پہلے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھنے کے دوران ہی عمل میں آئی تھی۔
وزارتِ داخلہ کی سمری میں کیا تھا؟
وزارت داخلہ نے اس تنطیم کو کالعدم قرار دینے کی جو سمری لکھی اس میں کہا گیا ہے کہ انصار الاسلام میں شامل افراد کی تعداد ملک بھر میں آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اور اس میں شامل افراد نے قانون نافد کرنے والے اداروں کا مقابلہ کرنے کے لیے پشاور میں مشقیں بھی کی ہیں۔ ان لٹھ بردار لشکر کے اسلام آباد میں آنے سے امن وامان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
'ریاست کے اندر ریاست کی اجازت نہیں دی جا سکتی'
وزیر اعظم پاکستان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں نجی ملیشیا بنانے کی گنجائش نہیں۔ ان کے بقول، ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ یہ پابندی کسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ انتہاپسندی کے خلاف ہے۔ ان کے بقول، صوبائی حکومتیں ایسے جتھوں سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی طے کر چکی ہیں۔
جمعیت علماء اسلام کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ ایسی پابندیاں لگتی اور ہٹتی رہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی رٹ کو جب کوئی چیلنج کرے گا تو قانون حرکت میں آئے گا۔
'پابندی کو چیلنج کریں گے'
جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنطیم کئی دہائیوں سے کام کر رہی ہے اور آج تک کسی مشکوک سرگرمی میں ملوث نہیں پائی گئی۔ حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ تنظیم جمعیت کے جلسوں کے انتظامات اور سیکورٹی کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔