کلکتہ میں منعقد ہونے والی ممتا بینرجی کی اپوزیشن ریلی کو بی جے پی کے خلاف حزب اختلاف کے عظیم اتحاد کی سمت میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ریلی کے بعد اپوزیشن میں زبردست جوش پیدا ہو گیا ہے۔ اس میں جہاں 23 جماعتوں کے 25 اعلیٰ رہنما شریک ہوئے، وہیں رپورٹوں کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد کارکنوں نے حصہ لیا۔
ریلی کے بعد مشترکہ انتخابی منشور تیار کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام، الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے خلاف، جنھیں چور مشین کہا گیا، مہم کے آغاز اور بی جے پی کے ہر ایک امیدوار کے خلاف اپوزیشن کا ایک امیدوار اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ریلی کے دوران حکومت کو اپنے لوگوں کی تنقید کا بھی نشانہ بننا پڑا۔ سابق مرکزی وزرا ارون شوری اور یشونت سنہا نے رافیل جنگی طیارے میں مبینہ بدعنوانی کا معاملہ اٹھایا۔ بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیمنٹ شتروگھن سنہا نے حکومت اور وزیر اعظم پر جم کر نکتہ چینی کی۔
مقررین نے کہا کہ اس حکومت کو اب جانا ہے۔ اس سے زیادہ جھوٹ کسی حکومت نے نہیں بولا اور اس نے آئینی اداروں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
کانگریس کے قومی ترجمان م افضل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرناٹک میں 19 پارٹیوں کا جو اتحاد قائم ہوا تھا یہ ریلی اس کی ایک توسیع ہے۔
ان کے مطابق پورے ملک میں مودی حکومت کے خلاف ایک ماحول بن گیا ہے اور عوام اس حکومت کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایسی ریلیاں ابھی اور ہوں گی۔
بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے اپوزیشن رہنماؤں پر بد عنوانی کا الزام لگایا او رکہا کہ وہ لوگ خود کو بچانے کی کوشش میں ایسا کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ریلی کا مذاق اڑایا اور کہا کہ وہاں سے ایک ہی آواز آرہی ہے ’’بچاؤ،بچاؤ‘‘۔
اس پر راہل گاندھی نے تیکھا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہاں عوام اس حکومت سے خود کو بچانا چاہتے ہیں کیونکہ اس میں بے روزگاری، کسانوں کی پریشان حالی اور دلتوں اور اقلیتوں پر مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔
بی جے پی کے کئی وزرائے اعلیٰ اور مرکزی وزرا نے بھی ریلی پر نکتہ چینی کی اور اپوزیشن رہنماؤں کو موقع پرست قرار دیا۔
بی جے پی کی جانب سے بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مودی کے مقابلے میں چہرہ پیش کریں۔ لیکن ریلی میں کوئی چہرہ نہیں پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ انتخابات کے بعد چہرہ خود بہ خود سامنے آ جائے گا۔
یاد رہے کہ اپریل اور مئی میں پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں اور 26 مئی سے قبل مرکز میں نئی حکومت قائم ہو جائے گی۔
حکومت کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ عوام میں اس کی ساکھ خراب ہو گئی ہے۔ اس کے کئی حلیف اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ایک اہم حلیف رام بلاس پاسوان بھی جانے والے تھے مگر بی جے پی نے قدرے جھک کر ان سے سمجھوتہ کر لیا۔
بڑی ذات کے ہندو بی جے پی کا ووٹ بینک رہے ہیں مگر دلتوں اور قبائلیوں کے حق میں ایک آرڈیننس لانے کی وجہ سے، جس کی زد بڑی ذات کے ہندوؤں پر پڑ رہی ہے، یہ طبقہ بی جے پی سے ناراض ہو گیا اور اس نے حال ہی میں ہونے والے تین ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں بی جے پی کے خلاف اور کانگریس کے حق میں ووٹ دیا جس کی وجہ سے بی جے پی کو چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
لہٰذا اس طبقے کو خوش کرنے کے لیے حکومت نے اونچی ذات کے لوگوں کے لیے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں دس فیصد نشستیں مخصوص کرنے کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا اور دونوں ایوانوں سے اسے منظور بھی کرا لیا۔ ملک میں پہلے ہی 49.50 فیصد ریزرویشن دیا جا چکا ہے اور سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں اس سے زیادہ نشستیں مخصوص کرنے پر پابندی نافذ کر دی ہے۔ حکومت کے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
اس بل کی مخالفت حزب اختلاف نے بھی نہیں کی کیونکہ اس کو خدشہ تھا کہ اس صورت میں اونچی ذات کا ووٹ اس سے کٹ جائے گا۔
بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ اس نئے قانون کی وجہ سے حکمران این ڈی اے کو دس فیصد اضافی ووٹ مل جائیں گے۔
حکومت نے طلاق ثلاثہ کا بل بھی اسی لیے پیش کیا تھا تاکہ اسے کچھ مسلم خواتین کے ووٹ مل جائیں۔
تین ریاستوں میں شکست سے قبل اترپردیش کے تین اہم حلقوں میں بھی اپوزیشن نے اتحاد قائم کیا تھا جس کے نتیجے میں بی جے پی امیدواروں کی بری طرح شکست ہوئی تھی۔
اترپردیش میں سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی نے انتخابی اتحاد کر لیا ہے لیکن اس میں انھوں نے کانگریس کو شامل نہیں کیا۔
کانگریس کی جانب سے پارٹی صدر راہل گاندھی کو اگلے وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور کئی اپوزیشن رہنما ان کے حق میں بھی ہیں۔ لیکن ممتا بینرجی سمیت اپوزیشن کے چند رہنما راس کے برعکس سوچتے ہیں۔ اسی لیے مذکورہ ریلی میں وزیر اعظم کے امیدوار کا نام پیش نہیں کیا گیا۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر بی جے پی کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتوں کا ایک عظیم اتحاد قائم ہو گیا تو بی جے پی کی شکست یقینی ہو جائے گی۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں اسے صرف 31 فیصد ووٹ ملے تھے اور اپوزیشن ووٹ منتشر ہو جانے کی وجہ سے وہ کامیاب ہو گئی تھی۔