ترکی اور یونان کے درمیان زبانی اور سفارتی جنگ کے بعد اب یونان کی تاجر برادری نے اعلان کیا ہے کہ وہ ترکی کی تیار کردہ مصنوعات اور خدمات کا بائیکاٹ کریں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے باقاعدہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
ایتھنز سے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار اینتھی کراساوا نے خبر دی ہے کہ آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد بنانے کے فیصلے کے خلاف یونان میں عوامی سطح پر رد عمل جاری ہے۔
یونان کے تاجروں کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ حکومت کو ترکی کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہیں۔ ملک کے تاجروں کو چاہیے کہ وہ بغیر وقت ضائع کیے بغیر ترکی کے سامان کا بائیکاٹ کر دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام صارفین کو بھی اس سلسلے میں پورا تعاون کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان روایتی دشمنی کے باوجود حالیہ برسوں میں ان کے درمیان تجارت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ یونان ترکی کو ایک اعشاریہ چھ ارب ڈالر کا مال برآمد کرتا ہے جب کہ ترکی سے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کا سامان خریدتا ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے یونان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور ایسے حالات میں ترکی کے ساتھ تجارتی تعلقات میں رکاوٹ یونان کے لیے خسارے کا سودا ہے۔
ان حالات کے باوجود آیا صوفیہ کی وجہ سے یونان کے عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ تجارتی بائیکاٹ کی کیا صورت نکلتی ہے، تاہم دونوں ملکوں کے درمیان اور بھی کئی مسائل ہیں۔ تاجروں کے لیڈر کورکیڈس کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ اس وقت ترکی سے تجارت ہمارے حق میں فائدہ مند ہے، مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کم مدتی فوائد زیادہ نقصان کا باعث تو نہیں بنیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ترکی سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن ہمارے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی کی اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے ہمیں اپنے دفاع پر خاصی رقم صرف کرنا پڑتی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات میں آیا صوفیہ کا معاملہ تازہ ترین ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ ہفتوں کے دوران ترکی کے صدر طیب اردوان نے اعلان کیا تھا کہ وہ یونان کے قریب سمندری حدود میں تیل اور گیس کی کھدائی کا ایک منصوبہ شروع کرنے والے ہیں۔ یونان کا دعویٰ ہے کہ متنازعہ سمندری حصہ اس کی ملکیت ہے۔
تاجروں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ یورپ کے دوسرے ملکوں سے کہے گی کہ وہ بھی ترک مصنوعات کے بائیکاٹ میں اس کا ساتھ دیں۔ یورپ بھی ترکی کے رویے سے خوش نظر نہیں آتا۔
بہر حال اس وقت تازہ ترین معاملہ آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ہے۔ اتوار کو یونان کے طول و عرض میں گرجا گھروں میں گھنٹیاں بجائی گئیں، جو آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد کی حیثیت دینے کے خلاف عوامی احتجاج تھا۔
یونان کے وزیر اعظم نے ترکی کے صدر کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی علاقے کے امن اور سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ یونان سمجھتا ہے کہ ترکی علاقے میں اپنی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسری طرف ترکی کا کہنا ہے کہ یونان ضرورت سے زیادہ رد عمل ظاہر کر رہا ہے۔ جب کہ یونان کا اصرار ہے کہ وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا اور اسی لیے اس نے اپنی فوجوں کو ریڈ الرٹ پر کر دیا ہے اور وہ کسی بھی سرحدی اشتعال انگیزی کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔