گذشتہ سال امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ گوانتانامو بے کا قیدخانہ جنوری 2010ء کے آخر تک بند کر دیا جائے گا۔ آج کل جتنے قیدی گوانتانامو میں ہیں، ان کی تقریباً نصف تعداد یمن کے لوگوں کی ہے ۔ یمن میں ان قیدیوں کے گھرانوں میں مایوسی اور ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے کیوں کہ جنوری کی ڈیڈ لائن گزرنے کے تین ماہ بعد بھی ان قیدیوں کی رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ساڑھے آٹھ سال ہوئے جب بشیر ناصر پاکستان سے لا پتہ ہوئے تھے۔ ان کے اہلِ خانہ کہتے ہیں کہ وہ نرسنگ میں اپنی اعلیٰ ڈگری مکمل کرنے کے لیے واپس پاکستان گئے تھے ۔ یمن سے جانے کے چار مہینے بعد ان کے گھرانے کو ریڈ کراس سے ایک خط ملا جس میں کہا گیا تھا کہ بشیر گوانتانامو میں ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی بیسم کہتے ہیں کہ’’مجھے کچھ نہیں معلوم کہ میرے بھائی کس حال میں ہیں کیوں کہ قیدیوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے گھرانوں کو گوانتانامو کے حالات کے بارے میں کچھ بتائیں‘‘۔ جہاں تک بیسم کے علم میں ہے ان کے بھائی پر اب تک کسی جرم کا الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔
گوانتانامو میں اب جو قیدی باقی بچے ہیں ان میں سے تقریباً نصف کا تعلق یمن سے ہے۔ جنوری میں ان رپورٹوں کے بعد کہ کرسمس کے روز ایک جہاز کو بم سے اڑانے کی ناکام کوشش کرنے والے ملزم عمر فاروق عبدالمطلب نے یمن میں تربیت حاصل کی تھی، امریکی عہدے داروں نے کہا کہ جن یمنی قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ کر لیا گیا تھا ان کی رہائی میں غیر معینہ مدت کے لیے تاخیر ہو جائے گی۔
ان اطلاعات سے کہ گوانتنامو کے سابق قیدیوں کی روز افزوں تعداد، جزیرہ نما ئے عرب میں القاعدہ کے ساتھ مِل کر جنگ کرنے یمن جا رہی ہے، یہ معاملہ اور زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ گوانتانامو کے سابق قیدی، سعید الشہری کو2007ء میں رہائی کے بعد سعودی عرب میں بحالی کے ایک مرکز میں بھیجا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اب دوسرے سابق قیدیوں کے ساتھ یمن میں القاعدہ کی کارروائیوں کی قیادت کر رہا ہے۔
لیکن سرگرم کارکن کہتے ہیں کہ یمنی قیدیوں کو کسی الزام کے بغیر کیوبا میں رکھنے سے یمن میں مغربی ملکوں کے خلاف جذبات میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔ یمن کی انسانی حقوق کی تنظیم ہُڈ کے ڈائریکٹر، خالد آلانسی کہتے ہیں کہ یمنی قیدیوں کے اہلِ خانہ کی امیدیں خاک میں مل گئیں جب گوانتانامو کے بند ہونے کی ڈیڈ لائن آئی اور گزر گئی اور ان کے گھرانے کے لوگ واپس نہ آئے۔
آلانسی کہتے ہیں کہ قیدیوں کی واپسی میں رکاوٹ کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ امریکہ کو اپنی سکیورٹی کی فکر ہے بلکہ گوانتانامو کے قیدی یمن اور امریکہ کے درمیان کھیلے جانے والے سیاسی اور مالی کھیل کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ سال جب امریکہ نے یمنی قیدیوں کی واپسی کی پیش کش کی تو یمن نے بحالی کے مرکز کے قیام کے لیے مالی امداد کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ’’یمن کی حکومت دہشت گردی کو اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سیاسی اور مالی فوائد حاصل کرنے کے وسیلے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ان کے پاس دنیا کواور خاص طور سے امریکہ کو دینے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سوا اور کچھ تھا بھی نہیں۔
آلانسی کی طرح امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ کالن پاول کے چیف آف اسٹاف، کرنل لارنس بی ولکرسن بھی یہی کہتے ہیں کہ گوانتانامو کے بیشتر قیدیوں کو کسی ثبوت کے بغیر گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن بعض دوسرے امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ بعض قیدی اتنے خطرناک ہیں کہ انہیں رہا نہیں کیا جانا چاہیئے اور چونکہ انہیں دشمن کے جنگجو ہونے کی بنا پر قید کیا گیا ہے، اس لیے امریکہ انہیں قانونی طور پر اس وقت تک قید میں رکھ سکتا ہے جب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے۔
بعض یمنی عہدے دار کہتے ہیں کہ یہ جنگ تو شاید کبھی بھی ختم نہ ہو۔ سابق وزیرِ اعظم، عبدالکریم العریانی کہتے ہیں کہ قیدیوں کو یمن واپس کیا جانا چاہیئے اور اگر ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود ہو تو ان پر یمنی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جانا چاہیئے ۔ ان کے مطابق ’’آپ کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ جب کوئی شخص اتنی تکلیفیں اٹھانے کے بعد واپس آئے گا تو اس کا طرزِ عمل کیا ہو گا ۔ مصیبتوں سے گزرنے کے بعد بعض لوگوں کا رویہ ٹھیک رہتا ہے اور بعض لوگ اور زیادہ انتہا پسند ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیا یہ کسی کو ہمیشہ جیل میں رکھنے کا جواز ہو سکتا ہے؟ آپ اسے انصاف کہیں گے یا نا انصافی؟‘‘
برسوں سے یمنی قیدیوں کے دوست احباب اور اہلِ خانہ احتجاج اور مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے وکیلوں سے بھی مدد مانگی ہے۔ لیکن بشیر کی بحفاظت واپسی کے متعدد وعدوں کے با وجود ان کے دوست کہتے ہیں کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں انہیں صرف پریشانیاں ہی ملی ہیں۔
بیسم نے بتایا کہ ان کے ایک اور بھائی اور ان کے ایک دوست نے جب اپنے پُر امن احتجاج کو پُر تشدد بنانے کی دھمکی دی تو انہیں دس سال قید کی سزا دے دی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کا بھائی گوانتانامو میں قید رہتا ہے اور وہ ان کی اسیری کے خلاف آواز بلند کرنا جاری رکھتے ہیں تو انہیں پوری توقع ہے کہ انہیں بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔