واشنگٹن —
خلیجِ گوانتانامو میں قائم امریکی حراستی مرکز میں موجود قیدیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک اور باقاعدہ مقدمات نہ چلائے جانے کے خلاف بھوک ہڑتال کردی ہے۔
قیدخانے کے ترجمان امریکی نیوی کیپٹن رابرٹ ڈیورنڈ کے مطابق 14 قیدیوں نے جمعے کو بھوک ہڑتال شروع کی تھی جن کی تعداد منگل کی شام 24 تک پہنچ گئی ہے۔
ترجمان کے مطابق بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں میں سے آٹھ کی حالت بگڑنے پر انہیں ٹیوب کے ذریعے زبردستی خوراک فراہم کی گئی ہے۔
قیدیوں کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ بھوک ہڑتال قیدیوں میں اپنی رہائی کے بارے میں پائی جانے والی ناامیدی کا اظہار ہے۔
خیال رہے کہ مشرقی کیوبا میں قائم اس امریکی حراستی مرکز میں 166 قیدی موجود ہیں جنہیں امریکی افواج نے مختلف ملکوں میں کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی کاروائیوں کے دوران میں حراست میں لیا تھا۔
تقریباً تمام ہی قیدی بغیر کسی الزام کے گزشتہ 11 برسوں سے حراستی مرکز میں قید ہیں اور ان کے خلاف اب تک کوئی باقاعدہ قانونی کاروائی بھی نہیں کی گئی۔
حراستی مرکز کے ترجمان کیپٹن ڈیورنڈ کے مطابق فوجی قانون کی روسے لگاتار کم از کم نو کھانے چھوڑنے والے قیدی کو بھوک ہڑتالی شمار کیا جاتا ہے۔
ترجمان کے مطابق دو بھوک ہڑتالی قیدیوں کے جسم میں پانی کی شدید کمی ہوجانے کے باعث انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
اوباما انتظامیہ نے ماضی میں گوانتانامو میں قید نصف سے زائد قیدیوں کی رہائی یا انہیں ان کے آبائی ممالک کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن امریکی کانگریس اس فیصلے پر عمل درآمد کی راہ میں حائل ہے۔
اس قید خانے کا آغاز جنوری 2002ء میں کیا گیا تھا جس کے بعد سے یہاں کے قیدی کئی بھوک ہڑتالیں کرچکے ہیں۔
حراستی مرکز میں موجود قیدیوں کی نمائندگی کرنے والے 50 سے زائد وکلا نے گزشتہ ہفتے امریکی سیکریٹری دفاع کو ایک خط بھیجا تھا جس میں ان سے قیدیوں کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
وکلا نے اپنے خط میں تشویش ظاہر کی تھی کہ کئی بھوک ہڑتالی قیدیوں کی حالت خطرناک حد تک بگڑ چکی ہے۔
قیدیوں کے وکلا کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ بھی حراستی مرکز کے لگ بھگ 100 قیدیوں نے محافظوں کی جانب سے خطوط، تصاویر اور دیگر قانونی دستاویزات چھیننے اور قید خانے کی کوٹھریوں کی تلاشی کے دوران میں قرآن کی بے حرمتی کرنے کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی۔
لیکن حراستی مرکز کے ترجمان نے اس بڑے پیمانے پر بھوک ہڑتال اور قرآن کی بے حرمتی کے الزام کی تردید کی ہے۔
قیدخانے کے ترجمان امریکی نیوی کیپٹن رابرٹ ڈیورنڈ کے مطابق 14 قیدیوں نے جمعے کو بھوک ہڑتال شروع کی تھی جن کی تعداد منگل کی شام 24 تک پہنچ گئی ہے۔
ترجمان کے مطابق بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں میں سے آٹھ کی حالت بگڑنے پر انہیں ٹیوب کے ذریعے زبردستی خوراک فراہم کی گئی ہے۔
قیدیوں کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ بھوک ہڑتال قیدیوں میں اپنی رہائی کے بارے میں پائی جانے والی ناامیدی کا اظہار ہے۔
خیال رہے کہ مشرقی کیوبا میں قائم اس امریکی حراستی مرکز میں 166 قیدی موجود ہیں جنہیں امریکی افواج نے مختلف ملکوں میں کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی کاروائیوں کے دوران میں حراست میں لیا تھا۔
تقریباً تمام ہی قیدی بغیر کسی الزام کے گزشتہ 11 برسوں سے حراستی مرکز میں قید ہیں اور ان کے خلاف اب تک کوئی باقاعدہ قانونی کاروائی بھی نہیں کی گئی۔
حراستی مرکز کے ترجمان کیپٹن ڈیورنڈ کے مطابق فوجی قانون کی روسے لگاتار کم از کم نو کھانے چھوڑنے والے قیدی کو بھوک ہڑتالی شمار کیا جاتا ہے۔
ترجمان کے مطابق دو بھوک ہڑتالی قیدیوں کے جسم میں پانی کی شدید کمی ہوجانے کے باعث انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
اوباما انتظامیہ نے ماضی میں گوانتانامو میں قید نصف سے زائد قیدیوں کی رہائی یا انہیں ان کے آبائی ممالک کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن امریکی کانگریس اس فیصلے پر عمل درآمد کی راہ میں حائل ہے۔
اس قید خانے کا آغاز جنوری 2002ء میں کیا گیا تھا جس کے بعد سے یہاں کے قیدی کئی بھوک ہڑتالیں کرچکے ہیں۔
حراستی مرکز میں موجود قیدیوں کی نمائندگی کرنے والے 50 سے زائد وکلا نے گزشتہ ہفتے امریکی سیکریٹری دفاع کو ایک خط بھیجا تھا جس میں ان سے قیدیوں کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
وکلا نے اپنے خط میں تشویش ظاہر کی تھی کہ کئی بھوک ہڑتالی قیدیوں کی حالت خطرناک حد تک بگڑ چکی ہے۔
قیدیوں کے وکلا کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ بھی حراستی مرکز کے لگ بھگ 100 قیدیوں نے محافظوں کی جانب سے خطوط، تصاویر اور دیگر قانونی دستاویزات چھیننے اور قید خانے کی کوٹھریوں کی تلاشی کے دوران میں قرآن کی بے حرمتی کرنے کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی۔
لیکن حراستی مرکز کے ترجمان نے اس بڑے پیمانے پر بھوک ہڑتال اور قرآن کی بے حرمتی کے الزام کی تردید کی ہے۔