پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں موبائل فون کےذریعے مبینہ طور پر توہین آمیز پیغام بھیجنے پر مسیحی برداری کے شخص کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق سرائے عالمگیر شہر کے رہائشی یاسر بشیر نے پیر کو ندیم جمیز کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس کو درخواست دی، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ندیم جیمز نے اسے موبائل فون کے ذریعے ایک نظم بھیجی، جو مبینہ طور توہین مذہب سے متعلق مواد پر مشتمل تھی۔
ندیم جیمز کا تعلق مسیحی برداری سے ہے اور یاسر بشیر کا دوست تھا۔
پولیس کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ توہین مذہب کے قانون کے تحتمقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے تاہم ابھی تک ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے کیونکہ جب پولیس ندیم جیمز کوگرفتار کرنےکے لیے اس کے گھر پہنچی تو وہ وہاں موجود نہیں تھا۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور ایسے واقعات میں ملوث ملزموں کو عدالتی اور قانونی کارروائی سے قبل بعض اوقات مشتعل ہجوم کے ہاتھوں نا صرف تشدد کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کچھ واقعات میں محض الزام کی بنا پر بعض افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ دوسری طرف ایسے مقدمات میں ملوث ملزموں کو عدالت میں اپنے دفاع کے لیے وکیل کی خدمات کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جب لوگوں نے ذاتی عناد کی بنا پر لوگوں کے خلافتوہین مذہب کے قانون کے تحٹ جھوٹے مقدمات درج کروائے۔
انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیر پرسن کامران عارف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ توہین مذہب کے معاملے کی حساس نوعیتکے پیش ایسے مقدماتمیں مناسب تفتیش کے بعد ہی مقدماتدرج کیے جانے چاہیں۔
" توہین مذہب سے متعلق مقدمات باعث تشویش ہیں کیونکہ اکثر یہ مقدمات زبانی گواہی پر مبنی ہوتے ہیں اور ان (کے دعوؤں ) کی تفتیش اور ان کی تصدیق کرنا مشکل ہوتا ہے ۔۔۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے مقدمات مناسب تفتیش کے بعد ہی درج کیے جائیں"۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے مناسب انتظامی طریقہ کار وضح کرنے کا مطالبہبھی کرتی رہیں ہیں تاہم ملک کے مذہبی حلقوں کی اکثریت اس قانون میں کسی قسم کی ترمیم کے حق میں نہیں ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے مقدمات میں ملوث متعدد مجرموں کو ملک کی ذیلی عدالتیں موت کی سزا سنا چکی ہیں تاہم تاحال کسی بھی مجرم کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے کیونکہ ان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں اعلٰی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔