انسانی حقوق اور پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرم کارکن گلائی اسماعیل کا کہنا ہے کہ اُن کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی کہنے پر شامل کیا گیا۔
گلالئی اسماعیل نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے خلاف درج کئے گئے مقدمات کا مقصد صرف انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے کارکنوں کو ہراساں کرنا ہے حالانکہ ان کے بقول ان مقدمات میں درج کی گئی الزامات حقیقت سے بہت دور ہیں۔
گلا لئی کا بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب گذشتہ روز پاکستان کی وزرات داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ گلالئی اسماعیل کا نام ایگزٹ کنڑول لسٹ میں پاکستان کے انٹلی جنس ادارے آئی ایس آئی کی سفارش پر شامل کیا گیا ہے۔
گلالئی اسماعیل نے ای سی ایل میں نام ڈالے جانے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔
گذشتہ روز درخواست کی سماعت کے دوران حکومت پاکستان کے نمائندہ کے طور ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بیرون ملک ریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے گلالئی کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گلالئی اسماعیل کو گزشتہ ماہ لندن سے واپسی پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ' ایف آئی اے نے ای سی ایل میں نام شامل ہونے پر اسلام آباد ائر پورٹ پر حراست میں لے لیا تھا تاہم انہیں چند گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل کے بیان پر حکومت کےکسی عہدیدار کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم حکومت میں شامل عہدیداروں کا یہ موقف رہا ہے کہ ای سی ایل میں کسی بھی شخص کا نام شامل کرنے کا ایک باقاعدہ قانونی طریقہ کار موجود ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی اور طر ح سے کسی کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت میں گلالئی اسماعیل نے کہا کہ ایک ذمہ دار شہری کے حیثیت سے آئین اور قانون کے مطابق وہ انسانی حقوق کے خلاف ورزی کرنیوالوں کے خلاف آواز بلند کررہی ہے اور انہیں عدالت سے انصاف ملنے کی پوری توقع ہے۔
پختونوں کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم پختون تحفظ تحریک کے لگ بھگ 18 رہنماؤں کے خلاف دس اگست کو صوابی میں منعقد ہونے والے جلسے سے خطاب کے بعدمقدمات درج کئے گئے تھے۔
منگل کو عدالت میں گلالئی کی درخواست کی سماعت کے دوران اُن کے وکیل بابر ستار نے عدالت کو بتایا کہ بعض پختون کارکنوں کے خلاف درج ہونے والی ایف آ ئی آر کے مطابق گلالئی کا نام اس میں شامل نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں حراست می لے لیا گیا۔
اس موقع پر عدالت نے کہا اس بات کی حقیقت تمام ریکارڈ دیکھنے کے بعد ہی معلوم کی جا سکتی ہے۔