وفاقی تحقیقاتی ادارے کی مختصر تحویل میں رہنے کے بعد پختون تحفظ تحریک کی خاتون رہنما گلالئی اسماعیل کو رہا کر دیا گیا ہے۔
محمد سیلم خان ایڈوکیٹ نے بتایا ہے کہ پاسپورٹ کیس میں گلائی اسماعیل کو شخصی ضمانت پر رہا کر دیا گیا، جبکہ صوابی میں درج مقدمے میں ان کی ضمانت پر رہائی کیلئے ہفتے کے روز مقامی عدالت سے رجوع کیا جائیگا۔
اس سے قبل گلالئی اسماعیل کے والد نے بتایا تھا کہ اُن کی بیٹی کو جمعے کی صبح لندن سے واپسی پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اہلکاروں نے حراست میں لے لیا تھا۔
تاہم، کچھ گھنٹوں کے لیے حراست میں رکھے جانے کے بعد، وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گلالئی اسماعیل کو پاسپورٹ کیس میں ضمانت پر رہا کر دیا ہے۔
پرویز اسماعیل نے بتایا تھا کہ اسلام آباد کے بے نظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اہلکاروں نے انہیں بتایا کہ گلالئی کا نام ’’ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ہے اس لئے انہیں تحویل میں لیکر ادارے کے دفتر منتقل کر دیا گیا ہے‘‘۔
تاہم، اُن کی گرفتاری یا تحویل میں لیے جانے کے بارے میں کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔
پختون تحفظ تحریک کے ایک اور رہنما ڈاکٹر سید عالم محسود نے بھی گلالئی اسماعیل کو حراست میں لینے کی تصدیق کی اور کہا کہ مزید معلومات حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
فضل خان ایڈوکیٹ نے اس کارروائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ’’اسے پختونوں کی تذلیل‘‘ قرار دیا؛ اور تمام پختونوں سے اس کے خلاف احتجاج کی اپیل کی ہے۔
گلالئی اسماعیل کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے اور ان کا شمار پختون تحفظ تحریک کے اہم اور متحرک کارکنوں میں ہوتا ہے۔
اس سے قبل بھی تحریک کے کئی کارکنوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے تاہم بعد میں انہیں رہا کردیا گیا۔
پروفیسر محمد اسماعیل نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اسلام آباد کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گلالئی اسماعیل کو صوابی پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور صوابی پولیس کے ایک دستے کو اسلام آباد طلب کیا گیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ گلالئی اسماعیل کا نام پختون تحفظ تحریک کے اُن 19 رہنماؤں میں شامل ہے جن کے خلاف صوابی پولیس نے پچھلے اگست کے دوسرے ہفتے میں مقدمہ درج کیا تھا۔
گلالئی اسماعیل قبل از گرفتاری ضمانت کرنے والوں میں شامل نہیں تھیں۔ اسماعیل کے بقول، محمد سلیم خان ایڈوکیٹ کے وساطت سے صوابی کی عدالت سے گلالئی اسماعیل کے ضمانت اور قانونی کاروائی کیلئے رجوع کیا جا رہا ہے۔