اسلام آباد سے پی ٹی ایم کے مظاہرے میں شرکت کرنے کے باعث گرفتار ہونے والی گلالئی اسماعیل کو رہا کر دئے جانے کی اطلاعات ہیں۔
ان کے والد نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ گلالئی اسماعیل کو رہا کر دیا گیا ہے۔ تمام دوستوں کا از حد مشکور ہوں انٹرنیشنل میڈیا کا بھی بہت شکریہ۔ جنہوں نے گلالئی کے لئے آواز اٹھائی۔
اس سے پہلے ان کے اسلام آباد کے جی سیون وومن تھانے سے لاپتہ ہونے کی اطلاعات تھیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سے تعلق رکھنے والی ریسرچر اور سینئیر صحافی رابعہ محمود نے ٹویٹ کیا ہے کہ ان کی گلالئی اسماعیل سے گفتگو ہوئی ہے اور گلالئی اسماعیل کا کہنا ہے کہ انہیں قریب چالیس گھنٹے حراست میں رکھا گیا مگر انہیں اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ جب گلالئی اسماعیل کو اسلام آباد کے جی سیون میں واقعہ تھانے سے لے جایا گیا تو ان کو خیال تھا کہ وہ جبری طور پر گمشدہ ہونے لگی ہیں۔
رابعہ محمود نے لکھا کہ انہیں گلالئی اسماعیل نے بتایا کہ انہیں گھنٹوں آبپارہ پولیس سٹیشن کے باہر پارک ایک وین میں رکھا گیا۔ شام ساڑھے چھ بجے انہیں اڈیالہ جیل لے جایا گیا اور جب دن ڈھل گیا تو پولیس کی گاڑی کو سڑک کنارے کھڑا کر دیا گیا۔ ’’گلالئی اسماعیل کو لگا کہ انہیں ماورائے عدالت قتل کر دیا جائے گا۔‘‘ اس کے بعد انہیں جیل لے جایا گیا اور شام گیارہ بجے انہیں رہا کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا ویب سائٹس پر آج سارا دن ٹرینڈ کرنے والا سوال #WhereIsGulalai یعنی ’گلالئی کہاں ہیں‘ رہا۔
آج گلالئی اسماعیل کی رہائی سے پہلے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کے والد پروفیسر محمد اسماعیل نے کہا تھا ان کی اطلاعات کے مطابق گلالئی اسماعیل آئی ایس آئی کے پشاور موڑ کے آفس میں تھیں اور ان کے ساتھ وہاں تفتیش کی جاتی رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ اطلاع ایک مقامی صحافی نے دی تھی۔
ان کے مطابق کل جب گلالئی اسماعیل کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر سے حراست میں لیا گیا تھا تو انہیں اسلام آباد جی سیون کے وومن پولیس سٹیشن میں رکھا گیا تھا۔ انہیں اس چیز کا علم گلالئی اسماعیل کے اپنے موبائل کی لوکیشن آن ہونے کی وجہ سے ہوا۔ بعد میں جب گلالئی سے موبائل فون لے لیا گیا تو اس کے بعد سے ان کی لوکیشن معلومات نہ مل سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں صبح بتایا کہ گلالئی رات تک پولیس سٹیشن میں تھی مگر صبح انہیں ادارے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
پروفیسر اسماعیل کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے ڈی سی نے انہیں کہا ہے کہ گلالئی اسماعیل سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کی حمایت کرتی ہے اور ایسی باتیں فوج کو منظور نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پریس کلب کے باہر سے پی ٹی ایم کے جو کارکن گرفتار ہوئے تھے ان میں سے باقی لوگ اڈیالہ جیل منتقل ہو گئے ہیں، مگر گلالئی اسماعیل اڈیالہ موجود نہیں تھیں۔
گلالئی کے والد نے بتایا کہ انہیں اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر نے شام سوا سات بجے کہا ہے کہ گلالئی اسماعیل اداروں کے پاس ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں حبس بے جا کی رٹ دائر کریں گے۔ 23 گھنٹے گزر جانے کے باوجود گلالئی کو عدالت پیش کیا ہے اور نہ ہی اسے گھر والوں اور وکیل سے ملنے دیا گیا ہے۔
اس سے پہلے اسلام آباد کے تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او چوہدری رزاق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اڈیالہ جیل بھیجے گئے افراد میں 18 مرد اور ایک خاتون شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے کارکن، صحافی اور سیاست دان گلالئی اسماعیل کی جبری گمشدگی پر شدید احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں جلد از جلد رہا کیا جائے۔
پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما محسن داوڑ نے لکھا کہ ایک خاتون ایکٹسوٹ کو گرفتار کرنا اور انہیں غیر قانونی حراست میں رکھنا نہایت شرمناک ہے۔
سینیر سیاست دان بشری گوہر نے لکھا کہ گلالئی کو ان کی مرضی کے بغیر نامعلوم جگہ پر رکھا گیا ہے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ ان پر پی ٹی ایم کے خلاف کسی حلف نامے پر دستخط کا دباؤ ڈالا جا رہا ہوگا۔
ضیاالدین یوسفزئی نے لکھا کہ کہاں ہے گلالئی، کیا حکومت مسنگ ہے؟ کیا جمہوریت انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے ناکام ہو چکی ہے۔
نگہت داد نے صدر پاکستان جناب عارف علوی کو لکھا کہ انہوں نے تین برس پہلے گلالئی اسماعیل کو فخر پاکستان کہا تھا۔ نگہت داد نے لکھا کہ آج وہی گلالئی غائب ہے اور اس کا خاندان اسے کل سے تلاش کر رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ٹویٹ کیا کہ ایمنسٹی گلالئی اسماعیل کے بارے میں پریشان ہے۔ ان کے بارے میں جلد از جلد پتا چلانا چاہیے کہ وہ کہاں ہیں۔ ان کے خلاف الزامات نہایت افسوس ناک ہیں۔ انہوں نے محض اپنے احتجاج کے حق کو استعمال کیا ہے۔