اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ ایک مشکل کام ہے جسے صرف مرد ہی کر سکتے ہیں۔
بھارتی سرحد کے قریب واقع اس صحرائی علاقے میں ایک اندازے کے مطابق 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ جن علاقوں میں کوئلہ نکالا جا رہا ہے وہاں بڑی تعداد میں زرد رنگ کے ڈمپر ٹرک دکھائی دیتے ہیں۔
ان میں سے 60 ٹن کے ایک ڈمپر ٹرک کی ڈرائیونگ کی سیٹ پر آپ کو گلابن بیٹھی نظر آئے گی۔
25 سالہ گلابن تین بچوں کی ماں ہے اور اس کا تعلق تھر میں آباد ہندو کمیونٹی سے ہے۔
گلابن نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ شروع دنوں میں مجھے ڈمپر چلاتے ہوئے بہت ڈر لگتا تھا، لیکن اب یہ میرے لیے ایک معمول کا کام بن گیا ہے۔
گلابن کا کہنا ہے کہ عورتیں ہر شعبے میں مردوں کی طرح کام کر سکتی ہیں ۔ عورتوں کو ڈمپر کی ڈرائیونگ کے شعبے میں آنا چاہیے۔ اس میں ان کے لیے روزگار کے بڑے مواقع موجود ہیں۔
اس نے بتایا کہ وہ ان 30 خواتین کے گروپ میں شامل تھیں جنہیں سندھ ایگروکول مائننگ کمپنی نے ڈمپر ٹرک چلانے کی تربیت دی۔
گلابن کو دوسری زیر تربیت خواتین پر یہ سبقت حاصل ہے کہ وہ پہلے سے کار چلانا جانتی تھیں۔
ایک اور زیر تربیت 29 سالہ خاتون، رامو نے کہا کہ اگر گلابن ڈمپر چلا سکتی ہے تو میں کیوں نہیں چلا سکتی۔ رامو 6 بچوں کی ماں ہے اور وہ 40 ٹن کا ڈمپر ٹرک چلاتی ہے۔
پاکستان میں چین کے تعاون سے سی پیک کے منصوبوں پر تیزی سے کام ہو رہا ہے جس میں توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ چین پاکستان میں کوئلہ، پانی اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہاہے تاکہ ملک میں جاری توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔
سندھ ایگرو کول مائننگ کمپنی کے پاس تقریباً 125 ڈمپر ٹرک ہیں۔ آنے والے دنوں میں کان کنی میں اضافے کے بعد اسے اندازاً 300 سے 400 ڈمپر ٹرکوں کی ضرورت ہو گی۔
ڈمپر ٹرک کے ڈرائیور کو 40 ہزار روپے ماہانہ کے لگ بھگ تنخواہ ملتی ہے۔
اس شعبے میں آنے والی خواتین روایتی ثقافتی زنجیریں توڑ رہی ہیں اور مالی خودمختاری حاصل کر رہی ہیں۔
تھر کی زیادہ تر خواتین گھر داری کرنے کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں اپنے خاندان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔
گلابن کا کہنا ہے کہ جب میں دوسری ٹرینی عورتوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے کہ عورتیں آگے بڑھ رہی ہیں اور اپنی زندگی بدل رہی ہیں۔