وقت تیزی سے بدل رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان بدل رہا ہے۔ کل تک خواتین کا گھر سے نکلنا، ٹیکسی میں سفر کرنا اور گاڑی یا ٹیکسی چلانا معیوب باتیں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن، آج کے پاکستان میں خواتین نہ صرف بے خوف و خطر ڈرائیونگ کر رہی ہیں، بلکہ اب خواتین کے لئے خواتین ڈرائیورز کے ساتھ ٹیکسیاں بھی گھر بیٹھے ملنے لگی ہیں۔
کراچی میں اس بار خواتین کے عالمی دِن پر ایک نئی ٹیکسی سروس شروع کی گئی ہے جس کا نام ہے ’پنک ٹیکسی‘ جو ’پیکسی‘ نامی ایک کمپنی نے شروع کی ہے۔
’پیکسی‘ کی مارکٹنگ منیجر، اقراء حمید نے جمعہ کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو انٹرویو میں بتایا ’پنک ٹیکسی‘ کی خدمات سے ایپ، ایس ایم ایس اور دیگر جدید طریقوں کی مدد سے گھر بیٹھے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، جبکہ راہ چلتے آواز دے کر بھی اس سروس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
گلابی رنگ کی اس ٹیکسی کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی ڈرائیور نا صرف خواتین ہوں گی بلکہ اس میں سفر بھی صرف خواتین ہی کرسکیں گی۔ اقراء کا کہنا ہے کہ پنک ٹیکسی کی ہر رائیڈ حادثاتی انشورڈ ہے یعنی کسی بھی حادثے کی صورت میں انشورنس کلیم ملے گا۔
اقراء کا مزید کہنا ہے کہ ’’اس سروس کا مقصد جہاں خواتین کو تحفظ کے احساس ساتھ سفر کی سہولت فراہم کرنا ہے وہیں ان مشکلات کو دور کرنا ہے جن کا سامنا وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران کرتی ہیں۔‘‘
’پیکسی پاکستان‘ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شیخ محمد زاہد کے بقول انہوں نے دس ڈرائیورز کو روزگار فراہم کیا ہے۔ ’’ہم انہیں ٹیکسی ڈرائیور نہیں ’پائلٹ‘ کہہ کر پکارئیں گے۔ ابھی یہ سروس محدود پیمانے پر ہے۔ لیکن، اگلے تین چار ماہ میں اسے لاہور اور اسلام آباد اور پھر ملک کے دیگر حصوں میں بھی شروع کردیا جائے گا‘‘۔
اقراء نے بتایا کہ ’پیکسی پائلٹس‘ میں خاتون خانہ، خواتین اور طالبات بھی شامل ہیں جبکہ مزید خواتین نے تربیت کیلئے ہمارے پاس اندراج کرایا ہے، جنہیں تربیت کے بعد جلد شامل کیا جائے گا۔
خواتین کیلئے مخصوص ٹیکسی سروسز کے علاوہ ایک مسافر کیلئے موٹر بائیک ٹیکسی بھی شروع کی گئی ہے، جو باضابطہ طور پر 23مارچ کو متعارف کرائی جائے گی۔
کراچی جیسے بڑے اور انتہائی اہم شہروں میں ٹریفک کے مسائل نہایت سنگین ہیں۔ کچھ ماہ و سال پہلے تک کالی، پیلی ٹیکسی شہر میں جگہ جگہ دستیاب تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے، خاص کر خواتین کو صبح اور شام کے اوقات میں بسوں اور منی بسول میں جگہ نہیں ملتی اور بیشتر وقت ڈرائیورز خواتین کو گاڑی میں بیٹھانے سے بھی منع کردیتے ہیں۔
یہ اور ایسے بیشمار مسائل کو دور کرنے کے لئے پاکستان میں حالیہ مہینوں میں موبائل ایپ ٹیکسی سروس ’کریم‘ اور ’اوبر‘ بھی شروع کی گئی تھیں۔ لیکن پچھلے ماہ ان کمپنیوں کے رجسٹریشن کے معاملے پر حکومت کو سخت کارروائی کرنا پڑی۔ صوبائی حکومت کا کہنا تھا کہ بغیر رجسٹریشن چلنے والی یہ ٹیکسیاں ’سیکورٹی ریسک‘ ہیں اور کبھی بھی کچھ کیا جا سکتا۔ لہذا، قانون کو حرکت میں آنا پڑا۔
اس وقت بھی’ اوبر‘ اور ’کریم‘ کو پابندی کا سامنا ہے۔ اقراء حمید کے مطابق ان کی کمپنی ’پیکسی‘ رجسٹرڈ فرم ہے اور تیزی سے اسے مقبولیت مل رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں مزید نئی کمپنیاں اس شعبے میں سرمایہ کاریں کریں گی اور عدالتی تحفظ حاصل ہوجانے کے بعد اوبر اور کریم بھی ان کے مقابلے پر ہوں گی۔ اس طرح صحت مند مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور اس کا براہ راست فائدہ عوام اور مسافروں کو پہنچے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ خواتین کا اکیلے سفر کرنا پاکستان میں شروع ہی سے غیر محفوظ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ خواتین کی اکثریت مرد کے بغیر گھر سے نکلیں تو ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے ڈرتی ہیں اور اس کے مقابلے میں آٹو رکشا کو ترجیح دیتی ہیں اس لئے میرے خیال میں پنک ٹیکسی سروس کو عوام اور خاص کر خواتین کے دل جیتنے اور ان کا مکمل اعتماد حاصل کرنے میں کچھ مہینوں یا سالوں کا وقت لگ سکتا ہے۔