رسائی کے لنکس

خلیجی ریاستوں میں جان لیوا گرمی کی پیش گوئی


سائنس دانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج موجودہ رفتار سے جاری رہا تو اس صدی کے آخر تک خلیج فارس گرمیوں میں انسان کے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔

ہم اکثر سنتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی مستقبل کے لیے خطرات لا سکتی ہے لیکن ایک حالیہ مطالعے میں اس تصور کے ایک تاریک پہلو کی منظر کشی کی گئی ہے۔

تازہ ترین مطالعہ سے وابستہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج اس قدر بڑھ گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انسانوں کے مستقبل کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔

اس کے ساتھ ہی انھوں نے خلیجی ریاستوں میں جان لیوا گرمی کی پیش گوئی کی ہے اور کہا ہے کہ اکیسویں صدی میں دبئی، ابو ظہبی جیسے شہروں میں موسم گرما انتہائی شدید ہو سکتا ہے۔

'لویولا میری ماؤنٹ یونیورسٹی' اور 'میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی' کے مصنفین کی طرف سے عالمی حدت کے اثرات کے حوالے سے خدشات پر زور دیا گیا ہے۔

محققین نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج موجودہ رفتار سے جاری رہا تو اس صدی کے آخر تک خلیج فارس گرمیوں میں انسان کے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔

اسی ہفتے جاری ہونے والی تحقیق سائنس کے بین الاقوامی جریدے 'نیچر کلائمٹ چینج' میں شائع ہوئی ہے جس میں ماہرین نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے اہم شہر جیسے دبئی، ابو ظہبی اور دوحہ سے ایران تک اس صدی کے آخر تک گرمی کی سخت ترین لہر کا تجربہ کر سکتے ہیں جس سے انسانی بقا کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق خلیجی ریاستیں پہلے سے زمین پر سب سے زیادہ درجہ حرارت کا تجربہ کرتی ہیں اور یہی وہ پہلا علاقہ ہو گا جو انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گا ۔

ماہرین نے کہا کہ موجودہ گرمی کی لہر کی شدت سے اکثر بیمار اور عمر رسیدہ افراد متاثر ہوتے ہیں لیکن مستقبل میں انتہائی گرمی کی لہر صحت مند اور افراد کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

ایک مشاہدے کے دوران گرمی کے انڈیکس جو درجہ حرارت اور نمی کو یکجا کرنے سے بنتا ہے، کم از کم چھ گھنٹوں کے لیے 74 سے 77 سیلسیس تک پہنچا، یہ انتہائی حدت تھی جو انسان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

تحقیق کے شریک مصنف الفتاح الطاہر نے کہا کہ انسان اتنی شدید گرمی چھ یا اس سے زائد گھنٹوں تک برداشت کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے جبکہ ان کا کہنا تھا کہ انسانوں نے اب تک زمین پر اتنی طویل گرمی اور نمی کو برداشت کرنے کا کبھی بھی تجربہ نہیں کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ خلیج فارس کا منفرد جغرافیہ اور آب و ہوا کے ساتھ گیسوں کے اخراج کی موجودہ رفتار کے نتیجے میں ممکنہ طور پر یہ گرمی کی لہر ہر دہائی میں ہو سکتی ہے اور اس صدی کے آخر تک عروج پر ہو گی۔

بقول ڈاکٹر الفتاح یہ غیر معمولی گرمی ہو گی لیکن دبئی، ابو ظہبی اور دوحہ کے لوگ ائیر کنڈیشنگ کی بدولت اس گرمی کو برداشت کر سکیں گے لیکن باہر کام کرنے والے افراد کے لیے یہ ناقابل برداشت ہو گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مکہ شہر میں مستقبل میں انتہائی حدت کا امکان نہیں ہے لیکن اس کے باوجود حج کے دنوں میں گرمی کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر الفتاح کا خیال ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے انسانی صحت کو لاحق خطرات پہلے سے زیادہ شدید ہو سکتے ہیں جیسا کہ پہلے سوچا گیا تھا اور ممکنہ طور پر موجودہ صدی میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔

سائنس دانوں نے اپنے مطالعہ میں ایک کمپیوٹر ماڈل کی مدد سے دیکھا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے نتیجے میں عالمی حدت میں تبدیلی واقع ہوئی ہے خاص طور پر انھوں نے خلیج فارس میں دیکھا کہ موسم گرما کے دنوں میں یہاں انتہائی گرم، خشک ریگستان، بہت مرطوب آب و ہوا اور خلیج ساحلی پٹی پر درجہ حرارت بہت زیادہ تھا۔

دریں اثناء ماہرین نے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں دنیا بھر میں گرمی کی لمبی لہر، انتہائی حدت اور گرمی سے متعلق اموات میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان شہروں میں انسانی زندگی کی بقا کا مسئلہ بنیادی طور پر درجہ حرارت کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ اس کی بڑی وجہ ہوا میں نمی کی اعلیٰ سطح ہو سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG