حزب اسلامی افغانستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ کابل حکومت کے ساتھ معاہدہ ملک میں امن کی بحالی کے مقصد سے کیا گیا ہے اور دونوں اطراف سے ایک دوسرے کی شرائط کو تسلیم کیے جانے کے بعد یہ معاہدہ ہوا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکہ اور اقوام متحدہ اپنی بلیک لسٹ سے جماعت کے راہنما گلبدین حکت یار اور دیگر راہنماوں کا نام جلد نکال دیں گے جس کے بعد حکمت یار جلد کابل میں نظر آئیں گے۔
ترجمان ہارون زرغون نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے اسد حسن کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ طالبان کے ساتھ ان کے رابطے نہیں ہیں مگر کوشش ہو گی کہ وہ بھی امن عمل کا حصہ بنیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے مذاکرات میں شامل ہونے سے متعلق کوئی بات ابھی وثوق سے نہیں کہی جا سکتی
حزب اسلامی ملک سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ کرتی رہی ہے اور طالبان کے ساتھ جس واحد نقطے پر دونوں گروہوں کا اتفاق رہا ہے وہ غیر ملکیوں کا انخلا ہی ہے۔
ترجمان ہارون زرغون نے کہا کہ حزب اسلامی اپنے اس مطالبے پر قایم ہے اور کابل ان کے مطالبے کو تسلیم کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ امریکہ بھی اس معاہدے کے حق میں ہو گا، بقول ان کے کابل کی حکومت کو اگر واشنگٹن سے تائید نہ ہوتی تو وہ یہ معاہدہ نہ کر سکتی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ گروپ کے براہ راست رابطے نہیں ہیں۔
أفغانستان میں مسققبل میں حزب اسلامی کے کردار کے سوال پر ہارون زرغون نے بتایا کہ ہم سیاسی عمل کا حصہ بنیں گے۔
دھر واشنگٹن میں افغان أمور کے ماہر تجزیہ کار، مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ مارون وائن بام نے بھی اردو سروس سے گفتگو کی اور معاہدے کو ایک بدترین معاہدہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے ظالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے کی ترغیب نہیں ملے گی بلکہ ہو گا یہ کہ ان کے بقول، گلبدین حکمت یار سیاسی عمل میں شامل ہوتے ہوئے پورے عمل کو نقصان پہنچائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور أفغانستان طالبان کے ساتھ معادہے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور دونوں کچھ نہ کچھ کامیابی ظاہر کرنے کے لیے بے چیں ہیں۔
أفغان حکومت اور بعض دیگر تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ معاہدہ أفغانستان کے سیاسی استحکام اور امن کی جانب ٹھوس قدم ہے۔
تفصیل سننے کے لیے منسلک آڈیو پر کلک کیجئیے: