رسائی کے لنکس

مودی کے دورۂ کشمیر سے قبل غیر معمولی انتظامات، جھڑپوں میں فوجی افسر سمیت 7 افراد ہلاک


سنجوان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی سے قبل کئی علاقوں میں موبائل فون سروسز معطل رہی اور پانچ کلو میٹر علاقے کے اندر اندر واقع تعلیمی اداروں کو جمعے کو بند رکھنے کا اعلان کیا گیا۔  
سنجوان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی سے قبل کئی علاقوں میں موبائل فون سروسز معطل رہی اور پانچ کلو میٹر علاقے کے اندر اندر واقع تعلیمی اداروں کو جمعے کو بند رکھنے کا اعلان کیا گیا۔  

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک روزہ دورے سے قبل علاقے میں مشتبہ عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ان جھڑپوں کے دوران نصف درجن عسکریت پسند اور سیکیورٹی فورسز کا ایک افسر ہلاک اور ایک درجن سے زائد اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

حکام کا بتانا ہے کہ جمعے کو علی الصباح جموں کے مضافاقی علاقے سنجوان میں سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ ہوئی جس کے دوران دو مبینہ 'دہشت گرد' مارے گئے ہیں۔

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کے مطابق علاقے میں فوجی آپریشن جاری ہے۔

اس سے قبل سیکیورٹی حکام نے سرحدی ضلع بارہمولہ میں جمعرات کو ایک جھڑپ کے دوران کالعدم لشکرِ طیبہ کے مبینہ اعلیٰ کمانڈر یوسف کانترو اور اُس کے تین ساتھیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس جھڑپ میں چاربھارتی فوجیوں سمیت پانچ سیکیورٹی اہلکار اور ایک شہری زخمی ہوئے تھے۔

سنجوان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی سے قبل کئی علاقوں میں موبائل فون سروسز معطل رہی اور پانچ کلو میٹر علاقے کے اندر اندر واقع تعلیمی اداروں کو جمعے کو بند رکھنے کا اعلان کیا گیا۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورے کے لیے غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے جارہے ہیں۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورے کے لیے غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے جارہے ہیں۔

حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں خفیہ اطلاع ملی تھی کہ دہشت گردوں نے وزیرِ اعظم مودی کے دورے سے پہلے علاقے میں کارروائی کا منصوبہ بنایا ہے۔ جس پر فورسز نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب سنجوان کے علاقے جلال آباد میں سرچ آپریشن شروع کیا۔

حکام کے مطابق آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں نے ان پر فائرنگ کی اور جوابی کارروائی میں دو عسکریت پسند ہلاک ہوگئے۔

یہ جھڑپیں ایک ایسے موقع پر ہوئی ہیں جب وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورے کے لیےغیرمعمولی حفاظتی انتظامات کیے جارہے ہیں۔ پانچ اگست 2019 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرکے اسے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے اقدام کے بعد بھارتی وزیرِ اعظم کا کشمیر کا یہ پہلا دورہ ہے۔

وزیرِ اعظم مودی اتوار کو جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع سامبہ میں بھارت میں یومِ پنچایت راج کے موقع پر ہونے والی ایک بڑی تقریب سے خطاب کریں گے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) اور جموں و کشمیر انتظامیہ کو اس تقریب میں ایک لاکھ سے زائد افراد کی شرکت کی توقع ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یومِ پنچایت راج پر بھارت بھر میں سرکاری سطح پر تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے لیکن وزیرِ اعظم مودی کی جانب سے اس طرح کی تقریب میں شرکت کے لیے جموں و کشمیر کا انتخاب کرنا سیاسی پیغام دینے کے مترادف ہے۔

بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں نہ صر ف علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے بلکہ علاقہ امن اور سیاسی استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ تاہم حزبِ اختلاف حکومت کے اس دعوے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتی ہے۔

حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ کشمیر میں پانچ اگست 2019 کے بعد سیاسی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے اور ظلم و جبر کے ذریعے قائم کردہ امن کے نتیجے میں علاقے میں قبرستان کی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

'مودی کا دورہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے'

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے سربراہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا ہے وزیرِ اعظم مودی کا دورۂ تاریخی اہمیت کا حامل ہے جس کے دوران وہ صنعتی ترقی کے منصوبوں کا اعلان کریں گے۔

ان کے بقول ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے روزگار کے چار لاکھ سے زائد بلا واسطہ اور بالواسطہ مواقع پیدا ہوں گے۔

بھارتی کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے واقعات کے خلاف احتجاج
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:33 0:00

اس دورے کے دوران بھارتی وزیرِ اعظم جن ترقیاتی منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھیں گے یا ان کا افتتاح کریں گے ان میں دریائے چناب پر بننے والے 850 میگاواٹ کا رتل اور 540 میگاواٹ کا کوار پن بجلی پروجیکٹ بھی شامل ہے جس پر پاکستان نے کئی بار اعتراض اٹھایا ہے۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت مذکورہ منصوبوں کی تعمیر کر کے دونوں ملکوں کے درمیان 1960 میں طے پانے والے سندھ طاس آبی معاہدے کی خلاف وزری کا مرتکب ہو رہا ہے۔

اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں نے چھ دریاؤں سندھ، چناب ، جہلم ، راوی، ستلج اور بیاس کے پانی کی منصفانہ تقسیم کاری کو تسلیم کیا تھا۔ متعلقہ کمیشنوں کے افسران کے درمیان حال ہی میں منعقدہ بات چیت کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی تھی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG