پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع دادو کے دیہات میں پیر اور منگل کی درمیانی شب آتش زدگی کے واقعے میں نو کم سن بچے ہلاک جب کہ خواتین سمیت کئی افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
دادو کی تحصیل میہڑ کی دو بستیوں میں لگنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے کئی کچے مکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس میں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ سو سے زائد مویشی بھی ہلاک ہو گئے جب کہ درجنوں گھر جل کر خاکستر ہو گئے۔
آگ لگنے کی وجوہات کا تاحال حتمی طور پر تعین نہیں کیا جا سکا، تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق پولیس نے کھلے چولہے کی آنچ کو آگ لگنے کی وجہ قرار دیا ہے۔
واقعے میں گندم اور چاول کی سینکڑوں بوریاں بھی جل کر خاکستر ہو گئیں، تیز ہواؤں کی وجہ سے آگ کا پھیلاؤاس قدر تیز تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دو بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
مقامی افراد کے مطابق شدید زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینسز تک موجود نہیں تھیں اس لیے انہیں پولیس موبائلز میں دادو اور بعض کو حیدرآباد منتقل کیا گیا۔
مقامی صحافی مختار چانڈیو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آگ رات کے وقت لگی لیکن صبح تک کوئی فائر بریگیڈ جائے حادثہ پر نہیں پہنچ پائی۔ کیونکہ تعلقہ مہیڑ اور قریبی تعلقہ خیر پور ناتھن شاہ میں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں خراب تھیں۔
اُن کے بقول آگ کی شدت بڑھنے پر صبح تقریبا دوگھنٹے کا سفر طے کرکے قمبر شہداد کوٹ سے فائر بریگیڈ کی گاڑی کو جائے حادثہ پر پہنچایا گیا۔
گاؤں کے رہائشی امام الدین نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی اس واقعے میں ہلاک ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آگ اس قدر شدید تھی کہ انہیں اپنے سوئے ہوئے بچوں کو گھر سے نکالنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی جدائی نے ان کی دنیا ویران کر دی ہے۔
اُن کے بقول بچوں کی ماں کو بے ہوشی کے دورے پڑ رہے ہیں جب کہ انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ سب کچھ ایک دم کیسے ہو گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے گاؤں کے رہائشی میرل چانڈیو نے بتایا کہ گاؤں کے تقریباً ہر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اُس رات تیز ہوائیں تھیں اور گاؤں میں موجود گندم کے ایک ڈھیر میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جو دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے گھروں تک جاپہنچی اور لوگوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ ساری رات آگ لگی رہی لیکن ہماری مدد کو کوئی نہ آیا۔ اس دوران کسی کے پیارے جان سے گئے اور کچھ کوزندگی بھر کی جمع پونجی اور مال مویشیوں سے محروم ہونا پڑا۔ آتشزدگی کی وجہ سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ لوگوں کی ساری املاک جن میں فرنیچر، کیش رقوم ، گھریلو استعمال کی اشیااور تین ٹریکٹرز بھی شامل تھے، جل کر خاکستر ہوگئے۔
آگ سے جھلسنے والے بچوں کی عمریں چار سے چودہ سال کے درمیان ہیں۔
میرل چانڈیونے بتایا کہ لوگ واقعے پر انتہائی غمزدہ ہیں جب کہ فیض محمد چانڈیو اور ملحقہ دیہات کی یہ آبادی زیادہ تر انتہائی غریب کسانوں پر مشتمل ہے جو مقامی زمینداروں کی زمینوں پر کام کرتے ہیں جب کہ کچھ افراد قریبی شہر میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔
صحافی مختار چانڈیو کا کہنا ہے کہ کاچھو کے علاقے میں واقع ان دیہات میں شدید گرمی میں پانی تقریباً ناپید ہوتا ہے جس کی وجہ سے علاقہ مکینوں کو اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب کہ تیز ہواؤں کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیلی۔
ان کا کہنا تھا کہ ضلع کے کئی علاقوں اور بستیوں میں اس موسم میں آگ لگنے کے واقعا ت عام ہیں نہ صرف دادو بلکہ تھرپارکر میں بھی آتشزدگی کے ایک واقع میں تقریباً دو درجن گھر تباہ ہوگئےاور بکریاں جل کر ہلاک ہو گئی تھیں۔
ہلاک ہونے والوں کی میتیں تعلقہ مہیڑ کے اسپتال میں پہنچائی گئیں اور پوسٹ مارٹم کے بعد ان کی تدفین کر دی گئی ہے۔
علاقہ مکینوں نے ایمبولینسز اور فائر بریگیڈ تاخیر سے پہنچنے پر احتجاج بھی کیا اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازے بھی کی۔ ادھر ڈپٹی کمشنر دادو نے علاقے کا دورہ کیا ، لوگوں کو ہر ممکن امداد کا یقین دلایا اور بتایا کہ حکومت کی جانب سے نقصانات کا سروے شروع کر دیا گیا ہے۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ذوالفقار منگریو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ میہڑ آتشزدگی کے متاثرین کے لیے 500 خیمے، 1500 کمبل، 1000 فولڈنگ بیڈز اور دیگر سامان پہنچا دیا گیا ہے۔ جب کہ مزید ضروری امدادی سامان بھی متاثرہ علاقوں میں پہنچایا جارہا ہے۔ ذوالفقار منگریو کا کہنا ہے کہ نقصانات کا تعین کرنے کے لیے سروے جاری ہے جب کہ آگ سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریبا 1500 سے 2000 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
ادھرسندھ اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں سمیت پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے بھی نو گھنٹے تک ایمبولینسز نہ پہنچنے پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیرِ اعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے آبائی ضلع دادو کے فرید آباد گوٹھ فیض محمدچانڈیو میں آتشزدگی کے واقع کے نتیجے میں جانی نقصان اور مویشیوں کی ہلاکت پر انتظامیہ سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی ہے کہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کی جائے ۔