چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے نقطۂ آغاز اور بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے شہری ان دنوں اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ احتجاج گوادر کے عوام کی جانب سے شروع کی گئی 'گوادر کو حق دو' تحریک کے تحت کیا جا رہا ہے اور گزشتہ بارہ روز سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس احتجاج کی صدارت سیاسی و سماجی رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن کر رہے ہیں جن کا تعلق جماعتِ اسلامی سے ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے "گوادر کو حق دو" تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن نے بتایا کہ یہ کسی سیاسی جماعت کا احتجاج نہیں بلکہ اس میں گوادر اور مکران کے عوام شامل ہیں جن میں ماہی گیر، تاجر، اساتذہ، طالب علم اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔
اس سے قبل 19 اگست کو بھی اسی تحریک کے تحت گوادر میں سر بندر کراس کے مقام پر ایک دھرنا دیا گیا تھا جو 21 اگست تک جاری رہا تھا۔
ہدایت الرحمٰن کا کہنا تھا کہ "ہم نے 19 اگست کو جو دھرنا دیا تھا وہ ماہی گیروں کے مسائل کے حوالے سے تھا۔ اس دوران صوبائی حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوئے تھے اور حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ کے مسائل حل کیے جائیں گے۔''
البتہ ان کے بقول صوبائی اور وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔
ماہی گیر مچھلی کے 'غیرقانونی' شکار سے کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟
گوادر کے رہائشی نصیر بلوچ ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ وہ بھی گوادر اور مکران کی سمندری حدود میں مبینہ طور پر غیرقانونی شکار کے خلاف احتجاجی دھرنے کا حصہ ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سمندر میں وہ اور ان جیسے کئی دوسرے ماہی گیروں کو کئی کئی روز تک شکار نہیں ملتا کیوں کہ ان کے بقول سندھ کے مبینہ طور پر غیرقانونی ٹرالرز گوادر کے حدود میں مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ 15 برسوں سے ماہی گیری کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایسے حالات کبھی نہیں دیکھے جیسے آج ہیں۔ اس سے قبل سمندر میں ماہی گیروں کا اچھا کام چل رہا تھا۔ ان کا گزر بسر اچھا تھا اور ایک ماہی گیر اپنا گھر چلا سکتا تھا اور اپنے بچوں کو اچھی صحت اور تعلیم فراہم کر سکتا تھا۔
ان کے بقول ''میں خود قرض دار ہوں، میرے اوپر ڈیزل والے کا ایک لاکھ 20 ہزار روپے قرض ہے، اس کے علاوہ 80 ہزار روپے کا راشن میں ادھار پر لے چکا ہوں۔''
انہوں نے بتایا کہ بہت سے ماہی گیر ایسے ہیں جو گزشتہ عید پر اپنے بچوں کے لیے کپڑے تک نہیں بنا سکے۔ ہر ماہی گیر اب تک دس سے پندرہ لاکھ روپے کا مقروض ہے۔
''گوادر کو حق دو'' تحریک کے مطالبات کیا ہیں؟
اس تحریک کے مطالبات میں سب سے بڑا مطالبہ سمندر میں غیرقانونی طور پر مچھلیوں کے شکار کا خاتمہ ہے۔ تحریک کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ صوبہ سندھ سے دو ہزار کے قریب ٹرالر بلوچستان کی سمندری حدود میں ٹرالنگ کر رہے ہیں۔
تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کے غیرقانونی شکار کے دوران ممنوعہ جال بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف گوادر بلکہ مقامی ماہی گیروں کا معاشی قتل ہو رہا ہے اور سمندری حیاتیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
مولانا ہدایت الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ اس سے قبل چین کے بھی چار سے پانچ ٹرالرز آئے اور مبینہ طور پر غیرقانونی شکار شروع کیا جس پر انہوں نے سخت ردِعمل دیا اور احتجاج کیا اور چینی ٹرالرز واپس لوٹ گئے۔
انہوں نے کہا کہ ''ایسا لگتا ہے کہ غیرقانونی طور پر مچھلی کا شکار کرنے والوں کے پیچھے بہت بڑا مافیا ہے اسی لیے ہمارا صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ گوادر تا مکران سمندری حدود میں غیر قانونی طور پر ٹرالنگ کو فی الفور روکا جائے۔''
مظاہرین کا دوسرا بڑا مطالبہ گوادر میں منشیات کا خاتمہ ہے۔ دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ نہ صرف گوادر بلکہ مکران ڈویژن منشیات کا گڑھ بن چکا ہے جس سے نوجوان متاثر ہو رہے ہیں۔
دھرنے میں شامل ایک بزرگ شہری حاجی عبدالرحمٰن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گوادر میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کو نشے کی لت لگ گئی ہے۔
ان کے بقول ان کے تین بیٹے ہیں، تینوں منشیات کے عادی ہیں۔ منشیات نے ان بچوں کی زندگیاں تباہ کردی ہیں۔
مولانا ہدایت اللہ نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ منشیات کے اڈوں کے خلاف فی الفور آپریشن کیا جائے اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کیا جائے۔
دھرنا میں شامل مظاہرین کا ایک مطالبہ گوادر شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں کا خاتمہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چیک پوسٹوں کے ذریعے عوام کو بلا جواز تنگ کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول سیکیورٹی چیک پوسٹیں ضرور بنائی جائیں مگر یہ عوام کی توہین کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کے تحفظ کے لیے کام کریں۔
گوادر میں عوامی احتجاج میں شدت کیوں؟
ضلع گوادر کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار بہرام بلوچ کے مطابق گوادر میں اس سے قبل بھی سیاسی جماعتوں کی سطح پر احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ البتہ رواں سال ہونے والے احتجاج اور دھرنے اس لیے ذرا مختلف ہیں کیوں کہ یہ کسی سیاسی جماعت کے پرچم تلے نہیں بلکہ عوامی سطح پر کیے جا رہے ہیں۔
بہرام بلوچ کے مطابق گوادر میں رپورٹنگ کے دوران انہوں نے دیکھا ہے کہ عوامی مسائل پر جتنا احتجاج گوادر میں ریکارڈ کیا گیا ہے شاید ہی ملک کے کسی اور حصے میں ہوا ہو۔
ان کے بقول عوامی مسائل کے حل کے لیے بنائی گئی تحریک "گوادر کو حق دو" کے احتجاج اور دھرنوں نے اب شدت اختیار کرلی ہے۔ کیوں کہ گوادر میں قیادت کا ایک خلا رہا ہے اور اب گوادر میں مختلف شعبوں کے افراد اپنے مسائل کے حل کے لیے "گوادر کو حق دو" تحریک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
تحریک کے حکومت سے مذاکرات
گوادر میں چلنے والی اس تحریک کے رہنماؤں نے منگل کو حکومتی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کی۔ مذاکرات کے اس پہلے دور کے لیے تین وزرا پر مشتمل کمیٹی کوئٹہ سے گوادر پہنچی تھی۔
کمیٹی میں صوبائی وزیر ترقیات و منصوبہ بندی میر ظہور احمد بلیدی، صوبائی وزیر صحت سید احسان شاہ اور صوبائی مشیر لالہ رشید دشتی شامل تھے۔
مذاکرات کے حوالے سے ''گوادر کو حق دو'' تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن نے بتایا کہ وزرا کے پاس مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
علاوہ ازیں بدھ کو حکومتی مذاکراتی ٹیم نے ایک مرتبہ پھر دھرنے کے مقام کا دورہ کیا اور وہاں حکومت نے دھرنے کے شرکا کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے چار نوٹی فکیشن جاری کیے۔
نوٹی فکیشن کے مطابق فرنٹیئر کور (ایف سی) کو سرحدی امور سے ہٹاکر اسے ضلع انتظامیہ کے حوالے کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ گوادر کی سمندری حدود میں غیر قانونی ٹرالنگ روکنے کے لیے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ فشریز کے اہلکار سمندر میں مشترکہ گشت کریں گے۔
نوٹی فکیشن کے مطابق ڈی ایس پی لیگل کو ماہی گیروں کے کشتیوں کو بند کرنے کے مقدمے کو جلد نمٹانے کی ہدایت کی گئی یے۔ جب کہ گوادر شہر میں منشیات کے خلاف کارروائی کے ساتھ ضلع بھر میں شراب خانوں کے لائسنس رد کرنے کے لیے ڈی پی او گوادر کو خط بھی لکھا گیا ہے۔
مطالبات کی منظوری اور نوٹی فکیشن کے اجرا کے بعد مولانا ہدایت الرحمٰن نے گوادر ایکسپریس وے اور مکران کوسٹل ہائی وے کو بند کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ البتہ انہوں نے دھرنا ختم کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا۔
مولانا ہدایت الرحمٰن کے بقول حکومت کو تین دن کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ سرکاری حکم ناموں پر عمل یقینی بنائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ دھرنا غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
ادھر حکومتی کمیٹی کے رکن اور صوبائی وزیر میر ظہور احمد بلیدی نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن کی جد وجہد کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایک عوامی جد و جہد ہے۔
ظہور احمد بلیدی کے بقول ہم نے اس تحریک کی حمایت بھی کی ہے اور مطالبات کی منظوری اور دھرنے کے اختتام کے لیے مولانا ہدایت الرحمٰن سے دو بار مذاکرات بھی کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے اور امید ہے کہ جلد یہ دھرنا ختم ہو گا۔