اسلام آباد —
امریکہ اور پاکستان نے علاقائی استحکام کے لیے دوطرفہ شراکت داری کی اہمیت پر اتفاق کرتے ہوئے دفاع اور سلامتی سے متعلق دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے پیر کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے الگ الگ ملاقات کی، جن میں دوطرفہ تعلقات اور علاقائی صورت حال پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
گزشتہ تقریباً چار سال کے دوران کسی بھی امریکی وزیر دفاع کا یہ پہلا دورہِ پاکستان ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور چک ہیگل نے پاک امریکہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
دونوں رہنماؤں نے علاقائی امن و استحکام کے لیے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعاون کی اہمیت کا اعتراف کیا اور کہا کہ حالیہ مہینوں میں دوطرفہ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے جس میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطوں بشمول وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ واشنگٹن کا بھی ذکر کیا گیا۔
وزیر اعظم نواز شریف اور چک ہیگل کی ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدت اسٹرایٹیجک مذاکرات کے تحت توانائی، دفاع اور جوہری عدم پھیلاؤ پر ورکنگ گروپوں کی سطح کے اجلاسوں میں ہونے والی پیش رفت پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
ملاقات میں دفاع اور سکیورٹی سے متعلق دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ تعاون کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس اہم شعبے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو بڑھانے کے لیے نئی ممکنہ راہیں تلاش کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
اس بارے میں پاکستان کے وزیر اعظم نے باہمی مفاد کی بنیاد پر طویل المدت اور وسیع البنیاد تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔
بیان میں وزیر اعظم نواز شریف نے ملک کی حدود میں امریکی ڈرون حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایسے حملے دہشت گردی کے خلاف کوششوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا اور بیان کے مطابق امریکہ کے وزیر دفاع نے افغان مصالحتی عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔
چک ہیگل کی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں بھی دفاعی شعبے میں دونوں ملکوں کے تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات اور خطے میں استحکام کے اُمور بھی زیر بحث آئے۔
امریکہ کے وزیر دفاع نے یہ دورہ ایسے وقت کیا جب ڈرون حملوں کے خلاف حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے احتجاج کے باعث صوبہ خیبر پختونخواہ کے راستے افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے ساز و سامان کی ترسیل بند ہے۔
اگرچہ سرکاری بیان میں دونوں رہنماؤں کے درمیان رسد کی بندش سے متعلق بات چیت کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے تناظر میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان یہ ایک اہم معاملہ ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع اس سے قبل ہفتہ کو افغانستان پہنچے تھے جہاں اُن کے ہم منصب بسم اللہ خان محمد نے اُنھیں یقین دہانی کروائی کہ امریکہ کے ساتھ سلامتی سے متعلق معاہدے پر ’’بروقت‘‘ دستخط کر دیے جائیں گے، اگرچہ افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے اس معاملے پر ہچکچاہٹ دیکھی جا رہی ہے۔
افغان سیاسی و قبائلی عمائدین کا اجلاس ’لویا جرگہ‘ صدر کرزئی سے مجوزہ معاہدے پر دستخط کرنے کی درخواست کر چکا ہے۔
تاہم افغان صدر حامد کرزئی نے امریکہ سے سیکورٹی معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس معاہدے کی رُو سے لگ بھگ 10 ہزار امریکی فوجی 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں تعینات رہ سکیں گے۔
امریکی افواج کے دستوں کی تعیناتی کا مقصد افغان افواج کی تربیت بتایا جا رہا ہے تاکہ افغان افواج کو طالبان کے خلاف جنگ جیتنے میں مدد مل سکے۔
امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے پیر کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے الگ الگ ملاقات کی، جن میں دوطرفہ تعلقات اور علاقائی صورت حال پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
گزشتہ تقریباً چار سال کے دوران کسی بھی امریکی وزیر دفاع کا یہ پہلا دورہِ پاکستان ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور چک ہیگل نے پاک امریکہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
دونوں رہنماؤں نے علاقائی امن و استحکام کے لیے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعاون کی اہمیت کا اعتراف کیا اور کہا کہ حالیہ مہینوں میں دوطرفہ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے جس میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطوں بشمول وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ واشنگٹن کا بھی ذکر کیا گیا۔
وزیر اعظم نواز شریف اور چک ہیگل کی ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدت اسٹرایٹیجک مذاکرات کے تحت توانائی، دفاع اور جوہری عدم پھیلاؤ پر ورکنگ گروپوں کی سطح کے اجلاسوں میں ہونے والی پیش رفت پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
ملاقات میں دفاع اور سکیورٹی سے متعلق دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ تعاون کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس اہم شعبے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو بڑھانے کے لیے نئی ممکنہ راہیں تلاش کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
اس بارے میں پاکستان کے وزیر اعظم نے باہمی مفاد کی بنیاد پر طویل المدت اور وسیع البنیاد تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔
بیان میں وزیر اعظم نواز شریف نے ملک کی حدود میں امریکی ڈرون حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایسے حملے دہشت گردی کے خلاف کوششوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا اور بیان کے مطابق امریکہ کے وزیر دفاع نے افغان مصالحتی عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔
چک ہیگل کی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں بھی دفاعی شعبے میں دونوں ملکوں کے تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات اور خطے میں استحکام کے اُمور بھی زیر بحث آئے۔
امریکہ کے وزیر دفاع نے یہ دورہ ایسے وقت کیا جب ڈرون حملوں کے خلاف حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے احتجاج کے باعث صوبہ خیبر پختونخواہ کے راستے افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے ساز و سامان کی ترسیل بند ہے۔
اگرچہ سرکاری بیان میں دونوں رہنماؤں کے درمیان رسد کی بندش سے متعلق بات چیت کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے تناظر میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان یہ ایک اہم معاملہ ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع اس سے قبل ہفتہ کو افغانستان پہنچے تھے جہاں اُن کے ہم منصب بسم اللہ خان محمد نے اُنھیں یقین دہانی کروائی کہ امریکہ کے ساتھ سلامتی سے متعلق معاہدے پر ’’بروقت‘‘ دستخط کر دیے جائیں گے، اگرچہ افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے اس معاملے پر ہچکچاہٹ دیکھی جا رہی ہے۔
افغان سیاسی و قبائلی عمائدین کا اجلاس ’لویا جرگہ‘ صدر کرزئی سے مجوزہ معاہدے پر دستخط کرنے کی درخواست کر چکا ہے۔
تاہم افغان صدر حامد کرزئی نے امریکہ سے سیکورٹی معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس معاہدے کی رُو سے لگ بھگ 10 ہزار امریکی فوجی 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں تعینات رہ سکیں گے۔
امریکی افواج کے دستوں کی تعیناتی کا مقصد افغان افواج کی تربیت بتایا جا رہا ہے تاکہ افغان افواج کو طالبان کے خلاف جنگ جیتنے میں مدد مل سکے۔