رسائی کے لنکس

بھارتی سپریم کورٹ کا حاجیوں کے لیے سبسڈی ختم کرنے کا حکم


بھارت کی تاریخ، اکثریتی ہندو آبادی اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت، مسلمانوں، کے درمیان تنازعات سے بھرپور ہے۔ لیکن عدالت کے اس فیصلے سے بھارتی مسلمان بظاہر مطمئن دکھائی دیتے ہیں

بھارت کی عدالتِ عظمیٰ نے مرکزی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ہر سال حاجیوں کو دی جانے والی سبسڈی کا منصوبہ ختم کرے۔

بھارتی عدالت کے اس فیصلے سے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت بظاہر مطمئن دکھائی دیتی ہے۔

بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے رواں ہفتے اپنے ایک فیصلے میں حاجیوں کو دیے جانے والے زرِ تلافی کے خاتمے کا حکم سنایا ہے۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر تمام حقائق منظرِ عام پر لائے جائیں تو کئی مسلمانوں کو یہ جان کر تکلیف ہو گی کہ ان کے حج پر اٹھنے والے اخراجات کا ایک بڑا حصہ حکومت ادا کر رہی ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں حج کی ادائیگی تمام صاحبِ استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک بارفرض ہے۔ حج پہ اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے سے معذور مسلمانوں کو اسلام میں اس فرض سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

بھارت کی تاریخ اکثریتی ہندو آبادی اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے درمیان تنازعات سے بھرپور ہے۔ اس تاریخ کے پیشِ نظر عدالت کے اس فیصلے پہ احتجاج عین ممکن تھا۔ لیکن اس کے برعکس بھارتی مسلمانوں کے بیشتر رہنمائوں نے عدالت کی جانب سے حج سبسڈی کے خاتمے کا خیر مقدم کیا ہے۔

ظفرالاسلام 'آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت' کے صدر ہیں جسے بھارتی مسلمانوں کی تنظیموں کا نگراں اتحاد سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت حج پر دیے جانے والے زرِ تلافی کے ذریعے بالواسطہ طور پر قومی فضائی کمپنی کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔

ظفر کہہ رہے تھے کہ مسلمان مجموعی طور پر بھارتی سرکار کی جانب سے حج پہ سبسڈی دیے جانے کے حامی نہیں ہیں۔ ان کے بقول، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سبسڈی مسلمانوں کے بجائے درحقیقت 'ایئر انڈیا' کو دی جارہی ہے۔

بھارتی سرکار کی جانب سے حاجیوں کو زرِ تلافی کی ادائیگی کا آغاز 1973ء میں اس وقت ہوا تھا جب سفرِ حجاز کے لیے بحری جہازوں کا استعمال ترک کیا گیا اور بذریعہ ہوائی جہاز سفر ہی حجازِ مقدس پہنچنے کا واحد ذریعہ ٹہرا۔

بحری سفر نسبتاً سستا تھا۔ لہذا اس وقت کی بھارتی حکومت نے بحری اور فضائی سفر پر اٹھنے والے اخراجات میں آنے والے فرق کی ادائیگی اپنے ذمہ لے لی اور اس کے بعد سے حکومت حاجیوں کو زرِ تلافی ادا کرتی آرہی ہے۔

لیکن ظفرالاسلام کا موقف ہے کہ حج پر سبسڈی دینے کا فیصلہ پہلے روز سے ہی متنازع تھا کیوں کہ اس کی پشت پر سیاسی مفادات کارفرما تھے۔

ظفر کے الفاظ میں، مسلمانوں نے ایک بار بھی سبسڈی دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا لیکن بھارتی حکومت اس پہ مصر رہی تاکہ مسلمان ووٹروں کو یہ باور کرایا جاسکے کہ حکومت انہیں فائدہ پہنچا رہی ہے۔

اس سبسڈی کی بدولت بھارتی حاجیوں کے سفرِ حجاز پر اٹھنے والے اخراجات کم ہوگئے ہیں کیوں کہ ان کا کچھ بوجھ بھارتی حکومت بانٹ لیتی ہے۔

بھارت سے ہر برس تقریباً ایک لاکھ افراد حج کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔ ارمان خالد ہاشمی بھی انہیں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2011ء میں یہ مذہبی فریضہ ادا کیا تھا۔

ارمان کہتے ہیں کہ سرکاری مدد کے بغیر سفرِ حج اسلام کی تعلیمات سے ہرگز متصادم نہیں بلکہ کسی حد تک مقتضائے دین کے مطابق ہے۔

بحیثیت مسلمان ہمیں حج اپنی ذاتی کمائی سے کرنا چاہیے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اگر سرکار یہ سبسڈی واپس لیتی ہے تو اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

بیشتر ہندوستانی حج سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ یہ ملک کے سیکولر آئین سے متصادم ہے جس میں سرکارکی جانب سے کسی بھی مخصوص عقیدے یا مذہب کے ساتھ خصوصی رعایت برتنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ حج سبسڈی کو آئندہ دس برسوں کے دوران میں مرحلہ وار ختم کردیا جانا چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG