سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ روئے زمین پر موجود کیڑوں کی پانچ لاکھ نسلیں ناپید ہو جانے کے خطرے سے دو چار ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر تقریباً 10 لاکھ جانوروں اور پودوں کی نسلوں کو ناپید ہو جانے کا خطرہ در پیش ہے جن میں سے نصف تعداد کیڑے مکوڑوں کی ہے۔
سائنس دانوں کا مزید کہنا ہے کہ کیڑے مکوڑوں کی معدومیت نسلِ انسانی کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔
'کنزرویشن بیالوجی' نامی جنرل میں 'سائنٹسٹس وارننگ ٹو ہیومینٹی آن انسیکٹ ایکسٹنکشنز' کے عنوان سے پیر کو شائع ہونے والی تحقیق کے مصنف اور فن لینڈ کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری سے وابستہ ماہر حیاتیات پیڈرو کارڈوسو کا کہنا ہے کہ کیڑوں کی نسلوں کا ختم ہو جانا انتہائی تشویش ناک ہے۔
پیڈرو کارڈوسو کا کہنا ہے کہ کیڑوں کی دو ہزار سے زیادہ اقسام انسانی غذا کا حصہ ہیں جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی انہیں لاحق خطرات میں اضافہ کیا ہے۔
تحقیق کے مطابق تتلیوں، بھنکوں، چیونٹیوں، مکھیوں، ٹڈیوں، تتلیوں اور ڈریگن فلائیز کی تعداد میں کمی کا تناسب ان کی فطری موت سے کہیں زیادہ ہے۔
پیڈرو کے بقول، "کیڑوں کی نسلوں کو تباہی سے دوچار کرنے اور ان کی تعداد میں کمی کی ذمے دار انسانی سرگرمیاں ہیں۔ کیڑے مار ادویات کے استعمال سے ان میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔"
بہت سے جانور بھی زندہ رہنے کے لیے کیڑے مکوڑوں کی وافر تعداد پر انحصار کرتے ہیں اور کیڑوں کی تعداد میں کمی کا اثر ان جانوروں اور پرندوں کی بقا پر پڑ رہا ہے۔
تحقیق کے مطابق یورپ اور امریکہ میں پرندوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کی بڑی وجہ کیڑے مار ادویات کا استعمال ہے جن کے سبب بہت سے کیڑوں کی نسلیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں جنہیں یہ پرندے اپنی غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
سائنس دانوں کے اندازوں کے مطابق دنیا میں کیڑے مکوڑوں کی تقریباً 55 لاکھ نسلیں ہیں جن میں سے اب تک صرف 10 لاکھ کو مختلف ناموں سے پہچان مل سکی ہے۔
'انٹرنیشنل یونین فار دی کنزوریشن آف نیچر' (آئی یو سی این) کی ریڈ لسٹ میں اب تک کیڑوں کی صرف 8400 اقسام کی نشان دہی کی گئی ہے جن کی بقا خطرے سے دوچار ہے۔ تاہم ماہرینِ حیاتیات کا کہنا ہے کہ یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔
مطالعے کے مطابق تقریباً 200 سال پہلے شروع ہونے والے صنعتی دور سے اب تک دنیا میں موجود کیڑوں کی ایک اندازے کے مطابق پانچ سے 10 فی صد اقسام ناپید ہو چکی ہیں۔