31 اکتوبر کو امریکہ بھر میں بڑے پیمانے پر ہالووین کا تہوار منایا جاتا ہے۔
ہالووین پر بھوت پریت اور چڑیلیوں کے ڈھانچوں اور کاسٹویم کے علاوہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی چیز ٹافیاں اور میٹھی گولیاں ہیں۔ اگرچہ امریکہ کئی برسوں سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور معاشی مشکلات کا سامنا کررہاہے ، لیکن اس کے باوجود میٹھی گولیوں اور ٹافیوں کی سالانہ فروخت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ کنفیکشنری بنانے والوں کی نیشنل ایسوسی ایشن کی نائب صدر سوزن وائٹ سائیڈ نے کہاہے کہ اس سال ہالووین پر دوارب 30 کروڑ ڈالر کی ٹافیاں اور میٹھی گولیاں فروخت ہونے کی توقع ہے جو ایک نیا ریکارڈ ہوگا۔گویا اس کا مطلب یہ ہے اوسطاً ہر امریکی ہالووین کے موقع پر ساڑھے سات ڈالر ٹافیوں وغیرہ پر خرچ کرے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ میٹھی گولیاں اور ٹافیاں صرف ہالووین کے موقع پر ہی مارکیٹ میں آتی ہیں۔ جن میں کاٹن کینڈی خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ اس سال ہالووین پر امریکہ میں ساڑھے تین کروڑ پونڈ کاٹن کینڈی فروخت کے لیے پیش کی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر امریکی کے حصے میں پونے دو اونس کاٹن کینڈی آئے گی۔
ہالووین کی شام امریکہ کے اکثر گلی کوچے کسی بھوت نگر کا منظر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر مکانوں کے سامنے اور ان کے اندر، گلیوں کے کونوں پر، پارکوں اورشاپنگ کے مراکز میں آپ کو بھوت پریت ، چڑیلیوں اور روایتی جادو گرنیوں کے خوف ناک ڈھانچے نظر آئیں گے۔ جن میں سے کئی ایک کی آنکھوں میں لگی تیز سرخ روشنیاں انہیں مزید ڈراونا بنارہی ہوتی ہیں۔کئی ایک ڈھانچے تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے قریب سے گذرنے پر وہ خوف ناک قہقہ لگاکر دل دہلا دیتے ہیں۔
اکتوبر کی اس شام کو پیٹھے کدو سے بھی گہری نسبت ہے۔ اس موقع پر اس کثرت سے پیٹھا کدو دکھائی دیتے ہیں کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ سبزی بھوت پریت کی مرغوب خوراک ہے۔
ہالووین کے لیے خصوصی طور پر بڑے بڑے سائز کے پٹھا کدواگائے جاتے ہیں ۔ انہیں اندر سے خالی کرکے ڈراونی شکلیں تراشی جاتی ہیں اور پھر اندر موم بتیاں روشن کردی جاتی ہیں۔ اب کچھ عرصے سے قدم آدم سائز کے برقی قمقوں سے آراستہ پلاسٹک کے پیٹھا کدو بھی آرہے ہیں۔
کاروباری مراکز میں بھی یہ مناظر اکتوبر شروع ہوتے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ ہالووین کی شام جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دے کر رخصت کر دیتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں ہالووین کی ابتدا 1921ء میں شمالی ریاست منی سوٹاسے ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ دو ہزار سال پرانا یہ تہوار امریکہ کے دوسرے قصبوں اور شہروں تک پھیل گیا ۔
ہالووین کا تہوار زمانہ قبل از تاریخ سے منایا جارہاہے۔ بعض روایتوں کے مطابق برطانیہ اور فرانس کے قدیم قبائل ہرسال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کا نیاسال یکم نومبر سے شروع ہوتا تھا۔چونکہ نومبر سے سردیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ قبائل سردیوں کو موت کے ایام سے منسوب کرتے تھے کیونکہ ان کے ہاں اکثراموات سردیوں میں ہی ہوتی تھیں۔
قبائل کا عقیدہ تھا کہ نئے سال کے شروع ہونے سے پہلے کی رات یعنی 31 اکتوبر کی رات روحوں کو چند گھنٹوں کے لیے دنیا میں آنے کی اجازت مل جاتی ہے اور وہ انہیں اور ان کے مال مویشیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ چنانچہ وہ روحوں کو خوش کرنے کے لیے آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کرتے تھے۔ خیرات کرتے اورمویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ اس موقع پر وہ جانوروں کی کھالیں پہنتے اور اپنے سروں کو جانوروں کے سینگوں سے سجاتے تھے۔
انیسویں صدی میں بڑے پیمانے پرلوگ یورپ سےآکر امریکہ میں آباد ہوگئے، جن میں ایک بڑی تعدادہالووین منانے والے آئرش باشندوں کی بھی تھی۔ ان کی آمد سے اس تہوار کو بڑا فروغ اور شہرت ملی اور اس میں کئی نئی چیزیں بھی شامل ہوئیں جن میں، ٹرک آر ٹریٹ، خاص طور پر قابل ذکر ہے، جو آج اس تہوار کا سب سے اہم جزو ہے۔
1950ء کے لگ بھگ ہالووین کی حیثیت مذہی تہوار کی بجائے ایک ثقافتی تہوار کی بن گئی جس میں دنیا کے دوسرے حصوں سے آنے والے تارکینِ وطن بھی اپنے اپنے انداز میں حصہ لینے لگے۔ رفتہ رفتہ کاروباری شعبے نے بھی ہالووین سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے نت نئے کاسٹیوم اور دوسری چیزیں مارکیٹ میں لانا اور ان کی سائنسی بنیادوں پر مارکیٹنگ شروع کردی۔ یہاں تک کہ اب ہالووین اربوں ڈالر کے کاروبار کا ایک بہت بڑا ثقافتی تہوار بن چکا ہے۔