اسرائیل کی جانب سے اپنے ایک فوجی کی ہلاکت کے جواب میں فلسطین کے علاقے غزہ پر شدید بمباری کے ایک روز بعد غزہ کی حکمران جماعت 'حماس' اور اسرائیلی حکام میں جنگ بندی پر اتفاق ہوگیا ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران فریقین کے درمیان طے پانے والی یہ دوسری جنگ بندی ہے جو اطلاعات کے مطابق اس بار بھی عالمی برادری خصوصاً مصر کی جانب سے 'حماس' پر دباؤ ڈالے جانے کے بعد ممکن ہوئی ہے۔
جمعے کو لڑائی کا آغاز غزہ اسرائیل سرحد پر تعینات ایک اسرائیلی فوجی کی ہلاکت سے ہوا تھا جو اسرائیلی حکام کے مطابق کسی فلسطینی نشانے باز کی گولی کا شکار ہوا تھا۔
گزشتہ چار برسوں کےد وران غزہ اسرائیل سرحد پر کسی اسرائیلی فوجی کی یہ پہلی ہلاکت تھی جس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے جمعے کو غزہ میں 60 سے زائد مقامات پر بمباری کی تھی۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی بمباری کا ہدف حماس کے زیرِ استعمال تنصیبات تھیں جن میں اس کے بٹالین ہیڈکوارٹرز اور اسلحے کے گودام بھی شامل تھے۔
اسرائیلی بمباری سے کم از کم چار فلسطینی ہلاک ہوگئے تھے جب کہ اسرائیلی فوج نے خبردار کیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو بمباری میں مزید شدت لائی جائے گی۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق صورتِ حال پر غور کے لیے جمعے کی شب اسرائیلی فوج کے صدر دفتر میں اعلیٰ سطحی قیادت کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا جس میں غزہ میں سرگرم فلسطینی جنگجووں کے خلاف مزید اقدامات پر غور کیا گیا تھا۔
تاہم ہفتے کی صبح 'حماس' کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے مصر اور اقوامِ متحدہ کے حکام کی کوششوں سے طے پانے والی جنگ بندی قبول کرلی ہے جس کے بعد صورتِ حال معمول پر آگئی ہے۔
حماس کے اعلان کے بعد اسرائیلی فوج نے بھی ایک اعلامیے میں غزہ کے ساتھ اپنی سرحد پر معمول کی سرگرمیاں بحال کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
حالیہ کشیدگی کے بعد اسرائیلی حکام نے کہا تھا کہ ان کا حماس کے ساتھ دوبارہ جنگ شروع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن غزہ کے شدت پسندوں کی جانب سے اسرائیل کی فضائی حدود کی مسلسل خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔
فلسطینی جنگجو گزشتہ چند ہفتوں سے پتنگوں کے ذریعے آتش گیر مواد اسرائیل کی حدود میں پہنچا رہے ہیں جن کی وجہ سے سرحد کے ساتھ واقع اسرائیلی علاقوں میں مسلسل آتش زدگی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔