وائس آف امریکہ نے گزشتہ سال پاکستان میں آزادی صحافت کے موضوع پر انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ سینئر صحافیوں نے بتایا کہ ملک میں سینسرشپ جیسی صورت حال ہے جب کہ کئی تجزیہ کاروں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ موجودہ حکومت کا ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔ اس موقع پر سیاست اور معیشت کے ساتھ صحافت کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ ایک بار پھر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور حکومت کے نمائندوں سے میڈیا کی صورت حال پر انٹرویوز کی سیریز شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں احمد نورانی اور جنرل امجد شعیب کے بعد آج حامد میر کا انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: سابق ادوار میں بھی میڈیا دباؤ کا شکار رہا۔ کیا موجودہ دور ماضی کا تسلسل ہے یا اس بار کچھ نیا ہے؟
حامد میر: مسلم لیگ ن کے دور میں غیر علانیہ سنسرشپ تھی۔ پیپلز پارٹی دور میں بھی میڈیا کو تنگ کیا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پر الزام لگتا تھا کہ میڈیا کی آزادی محدود کی جا رہی ہے تو وہ کہتے تھے، نہیں، بے فکر ہو جائیں۔ ہم آپ کی آزادی کا تحفظ کریں گے۔
جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ غیر علانیہ سنسرشپ اب علانیہ سنسرشپ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ یہ حکومت اس بات میں دلچسپی لیتی نظر نہیں آتی کہ اپنی جمہوری شناخت پر اصرار کرے اور کہے کہ ہم جمہوری لوگ ہیں اور ہم نے پابندی نہیں لگائی۔ وفاقی وزیر شفت محمود نے ایک بار برسبیل تذکرہ کہا کہ ہم آزادی صحافت پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ دنوں سے جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے بعد پوری دنیا کو پتا چل گیا ہے کہ پاکستان میں میڈیا بالکل آزاد نہیں۔
سوال: سنسرشپ کا ذمے دار کون ہے، حکومت یا اسٹیبلشمنٹ؟
حامد میر: عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ، دونوں دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک پیج پر ہیں۔ مسلم لیگ ن کے دور میں صورت حال مختلف تھی۔ اس دور میں لگتا تھا کہ مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں بالکل مختلف سمت میں ہیں۔ اب پی ٹی آئی کے وزرا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس دعوے کی کبھی تردید نہیں کی۔ اس لیے جو عمران خان کریں گے تو ہم سمجھیں گے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کرے گی تو ہم سمجھیں گے کہ عمران خان ان کے ساتھ ہیں۔ میں دونوں کو ذمے دار سمجھتا ہوں۔
سوال: چار چار پی ایف یو جے بنی ہوئی ہیں۔ صحافی متحد ہو کر دباؤ کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے؟
حامد میر: 2014 کے بعد سے صحافیوں کو تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ 2007 میں پرویز مشرف نے عدلیہ اور میڈیا کو نشانہ بنایا تو وکلا اور صحافیوں نے متحد ہو کر تحریک چلائی تھی۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ جج بحال ہو گئے۔ اس کے بعد ’’انہوں‘‘ نے حکمت عملی بنائی کہ میڈیا کو بھی تقسیم کر دیا جائے اور وکلا کو بھی متحد نہ ہونے دیا جائے۔ وکلا میں گزشتہ دنوں پیسے تقسیم کیے گیے ہیں۔ صحافیوں کو بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
گزشتہ چند دنوں کی صورت حال بعد آہستہ آہستہ 2007 والے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ وکلا اور میڈیا تنظیمیں بیدار ہو رہی ہیں۔ بہت عرصے کے بعد فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اسلام آباد میں اجلاس کیا۔ میں بھی اس میں شریک تھا۔ اس میں فیصلہ کیا گیا کہ پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت کمزور ہیں اور ہمیں اندر سے تقسیم بھی کیا گیا ہے۔ لیکن ہم دنیا کو بتائیں گے کہ پاکستان کا میڈیا کمزور ضرور ہے لیکن اس کے باوجود مزاحمت کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگر ہم باوردی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق اور پرویز مشرف کے خلاف مزاحمت کر سکتے ہیں تو اس بغیر وردی والے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر عمران خان کے خلاف بھی مزاحمت کر سکتے ہیں۔
سوال: میڈیا انڈسٹری میں تنخواہوں کا بحران ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے اور یہ کیسے حل ہو گا؟
حامد میر: الیکٹرانک میڈیا کی مشکلات مسلم لیگ ن کے دور میں شروع ہوئیں۔ گزشتہ سال مارچ اپریل میں سپریم کورٹ نے میری سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی اور ہدایت کی کہ جن ٹی وی چینلوں کے کارکنوں کو تنخواہیں نہیں مل رہیں، انہیں تنخواہیں دلوائیں۔ یہ مسئلہ اس زمانے سے موجود ہے۔ اس میں معمولی سی بہتری ہی ہو سکی ہے۔ اس کا تعلق حکومت کی پالیسی سے کم اور مارکیٹ کی صورت حال سے زیادہ ہے۔ نواز شریف دور میں میڈیا کو اتنے زیادہ فنڈ دیے گئے کہ اس میں غیر حقیقی پھیلاؤ آ گیا تھا۔ اس حکومت کے بعد فنڈ آنا بند ہو گئے تو بحران پیدا ہو گیا۔
سوال: جو چینل چل رہے ہیں، وہ تنخواہیں نہیں دے پا رہے لیکن نئے چینلوں کے لائسنس جاری کیے جا رہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں جو بحران کے دور میں چینل کھولنا چاہتے ہیں؟
حامد میر: جی ہاں، پاکستان میں اس وقت کوئی بھی شخص اخبار کا ڈیکلریشن اور ٹی وی چینل کا لائسنس لے سکتا ہے۔ پیمرا کو اپنے قواعد و ضوابط میں ایسی تبدیلی لانی چاہیے کہ ایسے شخص کو نیوز چینل کا لائسنس نہ ملے جس کا پس منظر صحافت کا نہ ہو۔ اگر کوئی شخص پراپرٹی ڈیلر ہو یا کوئی اور بزنس کرتا ہو تو صاف بات ہے کہ وہ اپنے کاروبار کے تحفظ کے لیے میڈیا کا کندھا استعمال کرے گا۔ پیمرا یہ تو دیکھتا ہے کہ حکومت کو کون سی بات پسند ہے یا ناپسند، لیکن یہ نہیں دیکھتا کہ میڈیا کے لیے کون سی بات اچھی ہے اور کون سی بری۔
سوال: موجودہ صورت حال کب تک بہتر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے؟ اور کیا پاکستانی میڈیا اپنی آزادی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی اہلیت رکھتا ہے؟
حامد میر: پاکستان کے میڈیا کو جس چیلنج کا سامنا ہے، اسے صرف اس شعبے کے تناظر میں نہ دیکھیں۔ یہ صرف میڈیا کا چیلنج نہیں ہے۔ یہ چیلنج منتخب پارلیمان کا ہے، آزاد عدلیہ کا ہے۔ پاکستان کے میڈیا کی آزادی پارلیمان اور عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے۔ اگر پارلیمان آزاد نہیں، عدلیہ آزاد نہیں تو میڈٰیا کیسے آزاد ہو گا؟
اگر کوئی شخص کیبل آپریٹرز کو فون کر کے نیوز چینل بند کروا دیتا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں۔ پارلیمان انتہائی کمزور ہے۔ عدلیہ کو شوپیس بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ اگر اس آئینے میں میڈیا ڈرا ڈرا، سہما سہما، اکھڑا اکھڑا دکھائی دے رہا ہے ، اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں، اس کے چہرے پر خون کے دھبے ہیں اور سر کے بال اڑے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کا پورا جمہوری نظام خوف زدہ ہے، کسی نے اس کا بازو مروڑ رکھا ہے، کوئی اس کی ٹانگ کھینچ رہا ہے، کوئی پشت پر خنجر سے وار کر رہا ہے۔ آپ کو یہ جو زخمی زخمی میڈیا نظر آرہا ہے، دراصل یہ زخمی پارلیمان اور زخمی عدلیہ کا عکس ہے۔
نوٹ: واضح رہے کہ وفاقی حکومت میڈیا پر دباؤ ڈالنے سے انکار کرتی ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے 4 جون 2018 کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاک فوج نے کبھی کسی میڈیا گروپ کو ڈکٹیشن نہیں دی اور نہ کسی صحافی کو فوج کی مرضی کے مطابق خبر لکھنے کے لیے کہا ہے۔