ایران میں جمعرات کے روز ایک سخت گیر عالم دین، ابراہیم رئیسی کو عدالت کا سربراہ نامزد کیا گیا ہے۔ اُن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کے رہبر اعلیٰ سے قربت رکھتے ہیں، اور اُنھوں نے مبینہ طور پر 1988ء میں سیاسی قیدیوں کو پھانسیاں دینے کے کام کی نگرانی کی تھی۔ اس تعیناتی کے نتیجے میں وہ اعتدال پسندوں کے اثر و رسوخ میں کمی لانے میں معاون بنیں گے۔
ایرانی استغاثے کے معاون سربراہ کے طور پر اُن کے مبینہ کردار کے باوجود رئیسی کو اس اہم عہدے پر مامور کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی جگہ لے سکتے ہیں۔ یہ بات ’رائٹرز‘ کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
رئیسی ایک سابق صدارتی امیدوار ہیں جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ پیشہ ور انقلابی محافظین سے بھی قربت رکھتے ہیں، جنھوں نے آیت اللہ صادق لاریجانی کی جگہ لی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، لاریجانی بھی رہبر اعلیٰ کے عہدے کے ممکنہ امیدوار ہوسکتے ہیں۔ تاہم، حقوق انسانی کے گروپ لاریجانی پر الزام دیتے ہیں کہ اُنھوں نے سیاسی قیدیوں کے حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کے معاملے کو صرف نظر کر دیا تھا۔
امریکی وزارت خزانہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے پر گزشتہ سال لاریجانی پر تعزیرات عائد کی تھیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ ایران کی عدالت دنیا کے لیے منصفانہ نظام کا نمونہ ہے۔
اُنھیں رہبر اعلیٰ نے نامزد کیا ہے۔ عدالت کا سربراہ ایران میں اہم اختیارات کا مالک ہوا کرتا ہے۔ ایران وہ ملک ہے جہاں مبینہ طور پر سیاسی مخالفین کے خلاف سخت قانونی اقدامات کیے جاتے ہیں۔
ایران نے کہا ہے کہ اس کی عدالت آزاد ہے اور یہ کہ اُس کے فیصلوں اور احکامات پر سیاسی مفادات اثرانداز نہیں ہوتے۔
ایران کی نوبیل انعام یافتہ، شیریں عبادی نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ’’عدالت کے سربراہ کے طور پر لاریجانی کا کام قابل قبول نہیں ہے۔
بقول اُن کے، ’’لیکن اُن کی جگہ رئیسی کا عہدہ سنبھالنا عدالت کے نام پر ایک دھبہ ہوگا، چونکہ ماضی میں سیاسی قیدیوں کے قتل اور ماورائے عدالت پھانسیاں دینے میں اُن کا کردار رہا ہے۔۔۔ یہ بد کی جگہ بدتر کی تعیناتی کے مترادف ہے‘‘۔
سال 2017میں رئیسی نے صدارتی انتخاب لڑا تھا، اور عملی کام کرنے کے قائل خیالات کے مالک، صدر حسن روحانی پر نکتہ چینی کی تھی، تاکہ وہ امریکہ اور دیگر طاقتوں سے معاہدے پر دستخط نہ کریں، جس میں ایران سے تعزیرات اٹھائے جانے کے عوض ملک کے جوہری پروگرام پر پابندیاں قبول کی تھیں۔
دھواں دار انتخابی تقریر میں روحانی نے رئیسی پر الزام لگایا تھا کہ وہ سیکورٹی اداروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن گئے ہیں، اور کہا تھا کہ ایرانی اُنھیں ووٹ نہیں دیں گے ’’جو صرف یہ جانتے ہیں کہ لوگوں کو کس طرح پھانسی دینی ہے اور قید کرنا ہے‘‘۔
رپورٹ کے مطابق، انتخابات میں رئیسی کی ناکامی کا الزام 28 برس پرانی ریڈیو ریکارڈنگ پر دیا گیا تھا، جو 2016میں نمودار ہوئی، اور جس میں 1988ء کے دوران ہزاروں سیاسی قیدیوں کو پھانسیاں دینے میں اُن کے مبینہ کردار کی جانب اشارہ کیا گیا تھا۔
ریکارڈنگ میں آیت اللہ حسین علی منتظری نے، جو اُس وقت رہبر اعلیٰ کے معاون تھے، کہا تھا کہ پھانسیاں ’’حاملہ خواتین اور 15 برس کی بچیوں‘‘ تک کو بھی دی گئیں، اور یہ کہ ’’اسلامی جمہوریہ کی جانب سے سرزد ہونے والے سب سے بڑے جرائم ہیں‘‘۔
ریکارڈنگ جاری کرنے کے معاملے پر منتظری کا بیٹا گرفتار ہوا اور اُنھیں قید کی سزا ہوئی تھی۔ مقدمے میں رئیسی نے استغاثے کا کام کیا۔
رئیسی نے گزشتہ سال کہا تھا کہ سیاسی قیدیوں کے خلاف مقدمات انصاف پر مبنی تھے اور یہ کہ انقلاب کے اوائلی برسوں کے دوران مسلح مخالفین کو منظر سے ہٹانے پر اُنھیں تمغہ دیا جانا چاہیئے۔