ایک زمانہ تھا کہ جب موٹاپے کو خوش خوراکی اور صحت کی علامت سمجھا جاتا تھا، مگراب وزن میں معمولی سا اضافہ بھی پریشانی کا باعث بن جاتا ہے اور لوگ وزن گھٹانے کے جتن کرنے لگتے ہیں۔
ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پریشانیوں سے بچو، پریشانیاں انسان کو دبلا کر دیتی ہیں، مگرکچھ عرصہ قبل ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا تھا کہ پریشانیاں اور تفکرات وزن بڑھانے میں ایک کردار ادا کرتے ہیں۔ گویا غم کھانا بھی وزن کے لیے اتنا ہی مضر ہے جتنا کہ مرغن غذائیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک موٹاپا امیر ملکوں کا مسئلہ تھا، اب غریب ملکوں میں بھی موٹے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو وزن گھٹانے کے لیے مسلسل فاقوں پر فاقے کرتے ہیں، مگر وزن کا گراف ہے کہ نیچے آنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وزن گھٹانے کا کوئی طریقہ اس وقت تک مؤثر نہیں ثابت نہیں ہوسکتا جب تک وزن بڑھنے کا اصل سبب معلوم نہ ہو۔ موٹاپا صرف چینی اور چکنائی کے زیادہ استعمال اور زیادہ بیٹھے رہنے سے ہی نہیں ہوتا، بلکہ اس کے اور بھی بہت سے اسباب ہیں۔
ایک تازہ ترین مطالعاتی جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ کچھ لوگ اس لیے موٹے ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں اپنا پیٹ بھر جانے کا پتا ہی نہیں چلتا اور وہ کھاتے چلے جاتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ احساس نہ ہونے کی وجہ کہ پیٹ بھر چکا ہے، دماغ کے ان حصوں کی کارکردگی کا خراب ہونا ہے، جو پیٹ بھرجانے پر بھوک ختم ہونے کا احساس دلانے والے خلیوں کو متحرک کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ ایسے لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ ان کا پیٹ بھر چکاہے، اس لیے وہ کھاتے چلے جاتے ہیں ، جس کے نتیجے میں ان کا وزن بڑھنے لگتا ہے۔
اس تازہ تحقیق سے یہ چیز سامنے آئی ہے کہ ہمیشہ خوش ذائقہ غذا ہی انسان کو بسیار خوری پر نہیں اکساتی ، بلکہ دماغ کے بھوک سے متعلق حصوں کے صحیح طور پر کام نہ کرنے سے بھی انسان اپنی جسمانی ضرورت سے زیادہ کھاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ کے خلیوں میں یہ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ابھی بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور اس کا دماغ افزائش کے عمل سے گذررہا ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے بچوں میں سے، جو ایک جیسی غذا کھاتے ہیں، اور ایک ہی طرح کے ماحول میں رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود کچھ کا وزن بڑھ جاتا ہے اور کچھ دبلے رہ جاتے ہیں۔
نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں ییل یونیورسٹی کے نیورو بیالوجسٹ پروفیسر ٹامس ہاروتھ کہتے ہیں کہ بھوک سے متعلق دماغ کے مخصوص حصے کی ساخت اور کارکردگی ہی یہ طے کرتی ہے کہ انسان دبلا پتلا رہے گا یا وہ رفتہ رفتہ موٹاپے کی طرف مائل ہوجائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہےہر انسان کی غذائی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اورجب انسان اپنی جسمانی ضرورت سے زیادہ خوراک استعمال کرتا ہے تو اضافی خوراک چربی کی شکل میں اس کے جسم میں جمع ہونے لگتی ہے اور وزن بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ پروفیسر ہاروتھ کہتے ہیں کہ انسان کو کس غذا کی کتنی ضرورت ہے، اس کا تعین بھوک سے متعلق اس کے دماغ کا مخصوص حصہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ جو چیز ہمیں بہت پسند آرہی ہوتی ہے کسی اور موقع پرہمارا دل اسے کھانے کو نہیں چاہتا۔