انسان ایک عرصے سے کبھی بادام اور اخروٹ کھا کر، کبھی ذہنی آزمائش کی وزرشیں کرکے اورکبھی مختلف دواؤں اور طریقوں سے اپنا دماغ بڑھانے کی کوششیں کررہاہے، مگر دوسری جانب کوئی چپکے چپکےاس کا دماغ کھا جاتاہے۔اور یہ کوئی محاورے والا ’دماغ کھانا‘ نہیں ہے بلکہ حقیقتا دماغ کھایا جاتاہے اور وہ بھی کچھ اس انداز سے جیسے چوہا چیزیں کترلیتا ہے۔
ہمارا دماغ اپنی تمام سرگرمیاں مخصوص خلیوں کے ذریعے جنہیں نیوران کہا جاتا ہے، سرانجام دیتا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق انسانی دماغ میں نیوران کی تعداد تقریباً اتنی ہی ہے جتنا کہ اس کائنات میں موجود سیارے اور ستارے، یعنی ایک کھرب سے زیادہ۔
ہمارا دماغ ایک کمپیوٹر چپ کی طرح ہے، جس میں کروڑوں سرکٹ ہیں جو بجلی پر کام کرتے ہیں۔ دماغ اپنی ضرورت کی بجلی خود پیدا کرتا ہے۔ ہمارے دماغ میں موجود برقی قوت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مقدار 10 سے 23 واٹ کا بلب روشن کرنے کے لیے کافی ہے۔
دماغ کو اپنے کاموں کی ادائیگی کے لیے گلوکوز اور آکسیجن کی ضرورت ہے، جو اسے خون مہیا کرتا ہے۔ ہمارے خون کی 20 فی صد گردش دماغ کی جانب ہوتی ہے ۔ ہمارا جسم خوراک سے جتنی گلوکوز پیدا کرتا ہے اس کا 25 فی صد دماغ خرچ کرڈالتا ہے اور ہمارے پھیپھڑے اپنے اندر جتنی آکسیجن جذب کرتے ہیں ، اس کا بھی20 فی صد حصہ دماغ ہی کے استعمال میں آتا ہے۔
دماغ کو جسم کے حکمران کی حیثیت حاصل ہے۔ایک اوسط انسانی دماغ کا وزن تقریباً تین پونڈ ہوتا ہے ، یعنی ہمارے جسم کا محض دو فی صد۔ گویا جسم کے زیادہ تر وسائل کو اس کا یہ انتہائی مختصر حصہ استعمال کرتاہے۔ اس اعتبار سے دماغ کئی ترقی پذیر ممالک کے اختیارات اور وسائل پر قابض حکمران اشرافیہ کا کردار ادا کرتا ہے ۔
مگر دماغ کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جسم کے ہر حصے کی تکلیف محسوس کرتا ہے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ اپنی ذات کے دکھ اور تکلیف سے بے نیاز ہوتا ہے۔ چاہے اسے کاٹ کر دولخت ہی کیوں نہ کردیا جائے ، اسے اپنی کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس میں اپنا دکھ محسوس کرنے کے اعصاب موجود نہیں ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے دماغ کو کون کتر رہاہے؟ سائنس دانوں کا کہناہے کہ ہمارے دماغ کے خلیوں کو کوئی اور نہیں خود ہمارا اپنا دماغ کھارہاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب کچھ برداشت کرلیتا ہے ، سوائے اپنی بھوک کے۔ جب اسے کچھ دیر تک خوراک نہیں ملتی تو وہ آخری چارے کے طورپر اپنے ہی خلیوں کا کھانا شروع کردیتاہے۔
ہمیں بھوک کا احساس معدہ دلاتا ہے ، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بھوک معدے کو نہیں بلکہ دماغ کو لگتی ہے۔ جب گلوکوز کی سطح کم ہونے لگتی ہے تو دماغ معدے کو پیغام بھیجتا ہے ، اور معدے کی حرکات ہمیں بھوک کا احساس دلانا شروع کردیتی ہیں۔ اس لیے بعض دفعہ معدہ بھرا ہونے کے باوجود بھی ہمیں بھوک لگ جاتی ہے اور بعض مرتبہ پیٹ خالی ہونے کے باوجود بھوک کا احساس نہیں ہوتا۔
دماغ کے لیے گلوکوز کی وہی حیثیت ہے جو گاڑی کے لیے پٹرول کی ہے ۔ اس سے پہلے کہ دماغ کے ایندھن کی سوئی صفر پر پہنچے، وہ اپنے خلیوں کو کھا کر اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنا شروع کردیتا ہے۔
فاکس نیوز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نیویارک کے البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن کے سائنس دانوں کو ڈائٹنگ پر تحقیق کے دوران یہ پتا چلا کہ شدید بھوک کی صورت حال میں دماغ کا ایک مخصوص حصہ وہی کام کرتا ہے جو ہمارے جسم کرتا ہے۔ ہمارا جسم خوراک نہ ملنے پر اپنی توانائی کی ضروریات چربی کو جلا کر حاصل کرلیتا ہے، جس سے وزن کم اور انسان دبلا ہوجاتا ہے۔ خیال یہ تھا کہ دماغ ایسا نہیں کرتا ، لیکن چوہوں پرسلسلے وار تجربات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ گلوکوز نہ ملنے پر دماغ کا ایک حصہ، جو نیند، جسم کا درجہ حرارت ، بھوک اور پیاس جیسے انسان کو زندہ رکھنے والے بہت سے افعال انجام دیتا ہے، اپنے ہی خلیے کھانا شروع کردیتا ہے۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر رجت سنگھ کا کہناہے کہ بھوک کے اسباب پر سائنسی تحقیق کے نتائج سے صحت مند زندگی گذارنے اور اپنے وزن پر قابو رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان کا کہناہے کہ اپنی خورا ک میں اس طرح توازن قائم کرنے سے، جس سے دماغ کی توانائی کی ضروریات پوری ہوتی رہیں، جسم کی فالتو چربی کو جلایا جاسکتاہے ۔
چنانچہ ڈائٹنگ کرنے والے خبردار دار رہیں کہ بھلے سے ڈائٹنگ جسم کی فالتو چربی کھائے یا نہ کھائے، مگران کے دماغ کو کھا سکتی ہے۔