جولائی 1971 میں پاکستانی حکام کو ایک دل چسپ صورتِ حال کا سامنا تھا کیوں کہ زیادہ آم کھانے سے ’ہنری کسنجر‘ کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور انہیں ایسے ڈاکٹر کی تلاش تھی جو انہیں پہچانتا نہ ہو۔
یہ سفارت کاری کی تاریخ کے ایک ایسے سنسنی خیز باب کا تذکرہ ہے جب پاکستان نے چین اور امریکہ کے درمیان رابطے بحال کرنے کے لیے کردار ادا کیا اور اس پورے مشن کو خفیہ رکھنے کے لیے کسی فلمی کہانی جیسا منصوبہ بنایا گیا۔
نتھیا گلی میں جس ’ہنری کسنجر‘ کی طبیعت خراب ہوئی تھی وہ درحقیقت امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی نہیں تھے بلکہ اس منصوبے کا ایک کردار تھے۔ اس لیے بھی ان کی شناخت چھپانا زیادہ ضروری تھا۔
کہانی جیسے لگنے والے ان حقیقی واقعات کے پیچھے کچھ ایسے سفاک تاریخی حقائق اور بدلتے حالات کا جبر تھا جس کے باعث دو بڑے ممالک امریکہ اور چین انتہائی راز داری سے رابطے بڑھانے کے لیے پاکستان کی مدد حاصل کر رہے تھے۔
جولائی 1971 میں ہونے والی اس تاریخی پیش رفت کو یاد کرنے کا یہ موقع یوں بھی ہے کہ لگ بھگ 52 برس بعد رواں ماہ ایک بار پھر ہنری کسنجر نے ایسے حالات میں چین کا دورہ کیا ہے جب چین اور امریکہ کے رابطے منقطع تو نہیں لیکن تنازعات سے متاثر ضرور ہیں۔
ضروری مگر جلدی نہیں
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ سلطان محمد خان اپنی کتاب ’چمن پر کیا گزری: ایک سفارت کار کی سرگزشت‘ میں لکھتے ہیں کہ انہیں 22 نومبر 1970 کو صدر یحییٰ خان نے بتایا کہ وہ سفارت کاری سے متعلق ایک انتہائی حساس کام ان کے ذمے لگانا چاہتے ہیں۔
معاملہ اتنا حساس تھا کہ صدر نے سلطان محمد خان کو تاکید کی کہ یہ بات صرف ان کے اور صدر کے درمیان رہنی چاہیے۔ یہ چین اور امریکہ کے درمیان رابطہ قائم کرنے کا مشن تھا اور اس میں ہر قدم پر راز داری اپنانے کی ہدایت تھی۔
چین اور امریکہ میں رابطے قائم کرنے کی ذمے داری یحییٰ خان نے خود نہیں اٹھائی تھی بلکہ جولائی 1969 میں امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن نے دورۂ پاکستان کے دوران اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔
تاہم اگلے ہی مہینے امریکہ میں پاکستان کے سفیر آغا ہلالی کے ذریعے صدر یحییٰ خان کو یہ پیغام بھی بھجوا دیا گیا کہ صدر نکسن کے نزدیک یہ معاملہ اہم تو ہے لیکن اس کے لیے فوری طور پر کوشش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کسی مناسب وقت کا انتظار کرنا ہی بہتر ہے۔
اکتوبر 1969 میں امریکہ میں پاکستانی سفیر آغا ہلالی نے مشیر برائے قومی سلامتی ہنری کسنجر سے ملاقات کرکے انہیں آگاہ کیا کہ صدرِ پاکستان یحییٰ خان 1970 کے آغاز میں چینی وزیرِ اعظم چو این لائی سے ملاقات کے لیے چین جانے والے ہیں۔ اگر صدر چاہیں تو وہ چینی وزیرِ اعظم کو ان کا کوئی بھی پیغام پہنچا سکتے ہیں۔
ہنری کسنجر نے آغا ہلالی کو بتایا کہ اگر صدر یحیٰی خان چاہیں تو امریکی صدر کا یہ پیغام وزیرِ اعظم چو این لائی کو پہنچا سکتے ہیں کہ امریکہ خیر سگالی کے طور پر آبنائے تائیوان میں اپنے دو ڈسٹرائیر بحری جہاز پیچھے ہٹا رہا ہے۔
یہ دراصل چین کے لیے خیر سگالی کا اظہار تھا اور اس بات کا اشارہ تھا کہ صدر نکسن رابطے بحال کرنے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کرچکے ہیں۔ چین کی جانب سے بھی مثبت اشارے ملنے لگے۔ اس کے باوجود صدر بار بار ان کوششوں کو خفیہ رکھنے پر اصرار کررہے تھے جس کے کئی تاریخی اور عملی اسباب تھے۔
رابطے بڑھانے کی کوششیں
ہنری کسنجر کے مطابق ساٹھ کی دہائی میں ماؤ زے تنگ کو احساس ہو رہا تھا کہ کئی تبدیلیوں کے باوجود ان کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
چین نے 1962 میں بھارت کے ساتھ جنگ کی۔ اسے اب امریکہ کے ساتھ ساتھ سوویت یونین جیسے حریف کا بھی سامنا تھا جس کے ساتھ جاری کشمکش میں 1969 تک مسلح تصادم تک نوبت آ گئی تھی۔
یہ تنازع اس قدر سنگین ہو چکا تھا کہ اگست 1969 میں امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز نے پریس کو آگاہ کیا تھا کہ سوویت یونین چین کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی دور میں ویتنام میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کی وجہ سے بھی چین کے خدشات بڑھ رہے تھے۔
چین سے متعلق اپنی کتاب ’اون چائنا‘ میں ہنری کسنجر لکھتے ہیں کہ یہ دور امریکہ میں بھی سیاسی اتار چڑھاؤ اور بے چینی کا تھا۔ 1963 میں صدر کینیڈی کاقتل ہوا تھا۔ اس دہائی میں امریکہ میں نسلی امتیاز سے متعلق کئی تنازعات سامنے آئے اور خاص طور پر امریکہ میں ویتنام جنگ ختم کرنے کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔
ان حالات میں 1968 میں رچرڈ نکسن امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ بطور صدارتی امیدوار 1967 میں انہوں نے فارن افیئرز نامی جریدے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ "ہم چین کو ہمیشہ بین لاقوامی برادری سے باہر نہیں رکھ سکتے۔"
امریکی محکمۂ خارجہ کے آفس آف ہسٹورین کے مطابق ویتنام کی جنگ میں شدت آنے کے بعد امریکی پالیسی سازوں نے ایشیا کے کمیونسٹ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر غور شروع کردیا تھا۔
ان کے خیال میں اس طرح مستقبل کے تنازعات سے بچنے کے ساتھ ساتھ خود کمیونسٹ ممالک کے اتحاد کو کمزور کرنے میں بھی مدد مل سکتی تھی۔
ہنری کسنجر لکھتے ہیں کہ مجبوریوں اور ضرورتوں کی وجہ سے پالیسیاں تبدیل کرنا پڑتی ہیں لیکن ان کے لیے راستے خود بہ خود نہیں بنتے، بنانے پڑتے ہیں۔
ماؤ اور نکسن دونوں کے لیے بیس برس سے جاری کشیدگی کو یک لخت ختم کرکے فوراً رابطے بحال کرنا آسان نہیں تھا کیوں کہ یہاں اختلاف صرف مفادات کا نہیں تھا۔
چین مارکسی نظریات کی بنا پر امریکہ کو ’سرمایہ دارانہ استعمار‘ سمجھتا تھا اور امریکہ کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں ’فری ورلڈ‘ کا علمبردار تھا۔ اس لیے چین کی جانب ہاتھ بڑھانا اس کے لیے بھی آسان نہیں تھا تاہم اس مشکل کو آسان بنانے کے سوا دونوں ہی کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے آفس آف ہسٹورین کے مطابق صدر نکسن کو یہ خدشہ بھی تھا کہ چین سے متعلق امریکہ کے بیس سال سے جاری موقف میں کوئی تبدیلی لانا اتنا مشکل فیصلہ تھا کہ انہیں ڈر تھا کہ محکمہ خارجہ بھی اسے آسانی سے تسلیم نہیں کر سکے گا۔
اسی لیے وہ چین سے رابطے بحال کرنے کی ہر کوشش کو انتہائی محتاط اور خفیہ انداز میں آگے بڑھا نا چاہتے تھے۔ پاکستان کو بھیجے جانے والے ہر پیغام میں اس پر اصرار کر رہے تھے۔
اپنے امریکی ہم منصب رجرڈ نکسن کے حسبِ خواہش رابطوں کو خفیہ رکھنے کے لیے صدر یحییٰ خان نے یہ حکمتِ عملی ترتیب دی تھی کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر آغا ہلالی امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی ہنری کسنجر کو پیغامات پہنچائیں گے جب کہ چینی وزیرِ اعظم چو این لائی سے اسلام آباد میں چینی سفیر کے ذریعے رابطہ کیا جائے گا۔
پیغام رسانی میں احتیاط اور راز داری کی وجہ سے رابطے بہت سست روی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ نومبر 1970 میں شروع ہونے والی اس پیغام رسانی کے بعد بالآخر 21 اپریل 1971 کو پاکستان کو چینی وزیرِ اعظم چو این لائی کا پیغام ملا کہ وہ بیجنگ میں صدر نکسن کے کسی خصوصی نمائندے کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تاہم انہوں نے ملاقات کے طریقۂ کار اور دیگر تفصیلات کو ثالثی میں کردار ادا کرنے والے جنرل یحیی خان پر چھوڑ دیا۔
تائیوان سے آگے۔۔۔
بنیادی طور پر تائیوان ہی وہ تنازع تھا جس نے امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات میں خلیج کی بنیاد رکھی تھی اس لیے پیغام رسانی کے اس سلسلے میں یہی موضوع گفتگو کا محور رہا۔
ماؤ زے تنگ کی قیادت میں آنے والے کسانوں کے انقلاب کے بعد چین کے فوجی و سیاسی رہنما چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کا خاتمہ ہوا۔ یکم اکتوبر 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ انقلابی حکومت قائم ہونے کے بعد کائی شیک اور ان کے ہزاروں حامی فرار ہو کر تائیوان چلے گئے اور وہاں ایک جلا وطن حکومت قائم کر لی تھی۔
دوسری عالمی جنگ میں امریکہ جاپان کے مقابلے میں چینی قوم پرستوں کا ساتھ دے رہا تھا اور اس نے کائی شیک کی تائیوان میں قائم ہونے والی حکومت کی حمایت بھی جاری رکھی۔
دل چسپ بات یہ تھی کہ تائیوان میں جمہوریہ چین کی صورت میں قوم پرستوں کی حکومت اور عوامی جمہوریہ چین دونوں ہی اس بات کے دعوے دار تھے کہ اصل چین انہیں تسلیم کیا جائے۔
ابتدا میں امریکہ تائیوان میں قائم ہونے والی جمہوری چین کی حکومت کو تو تسلیم کرتا تھا لیکن کمیونسٹ چین کے قانونی جواز سے انکاری تھا۔ تائیوان کے تنازع پر 1954 اور 1958 میں چین اور امریکہ آمنے سامنے آچکے تھے۔ امریکہ نے تائیوان کی حمایت اور آبنائے تائیوان میں اپنی موجودگی برقرار رکھی ہوئی تھی۔
اسی لیے جب 1970 میں رابطے بحال ہونے کی کوششوں کا آغاز ہوا تو ابتدائی طور پر چین نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بنیادی تبدیلی لانا مقصود ہے تو امریکہ کو آبنائے تائیوان سے اپنی فوج واپس بلانا ہو گی۔
امریکہ پہلے ہی اس بات کی وضاحت کر چکا تھا کہ مذاکرات کو تائیوان تک محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ دیگر دو طرفہ مسائل اور تعلقات میں بہتری کے ذرائع پر بھی بات ہو گی۔
غلط فہمیوں کی خلیج
27 اپریل 1971 کو یہ پیغام ہنری کسنجر کو موصول ہو گیا۔ بقول سلطان احمد خان کے اگرچہ صدر نکسن اور کسنجر بے چینی سے اس پیغام کے منتظر تھے لیکن یہ جواب ملنے کے بعد انہوں نے سفارت کاری کی نفاستوں کے پیش نظر رسمی خیر مقدم کا اظہار کیا اور تفصیلی جواب دینے کا وعدہ کیا۔
پیغام میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جب تک کوئی اور قابلِ اعتماد بندوبست نہیں ہوتا چین پاکستان کے ذریعے ہی مراسلت بحال رکھے۔
یکم مئی کو یہ پیغام چین کو ملا تو پاکستان میں چینی سفیر چانگ تنگ کے ذریعے وزیرِ اعظم چو این لائی نے جو جواب دیا وہ انتہائی غیر متوقع تھا۔
پیغام میں بغیر کسی لگی لپٹی کے کہا گیا تھا کہ اگر صدر نکسن کو یہ ظاہر کرنے میں شرم محسوس ہو رہی ہے کہ وہ یا ان کا ایلچی چینیوں سے گفت و شنید کر رہے ہیں اور وہ اس لیے سارے معاملے کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں تو چین یہ سوچنے پر مجبور ہو گا کہ نکسن مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں بھی یا نہیں۔
سلطان محمد خان اپنی کتاب ’چمن پہ کیا گزری‘ میں لکھتے ہیں کہ انہیں چین کے پیغام سے حیرت تو ہوئی لیکن انہیں اندازہ تھا کہ 20 سال سے دونوں ملکوں میں جاری کشمکش اور اس دوران ایک دوسرے سے مکمل بے گانگی کے باعث دونوں ممالک میں ایک دوسرے کی داخلی سیاسی پیچیدگیوں کی سمجھ بوجھ ہی ختم ہو گئی تھی۔
سلطان محمد خان نے یحیی خان سے بات کرنے کے بعد چینی سفیر سے مل کر وضاحت کی کہ امریکہ میں نیشنل سیکیورٹی کونسل اور محکمۂ خارجہ کے درمیان کشمکش ہے۔ ایک طرف وائٹ ہاؤس ہے تو دوسری جانب کانگریس۔
اس سب سے بڑھ کر امریکہ کے ذرائع ابلاغ اتنے طاقت ور ہیں کہ وہ ایسے کسی رابطے کی بھنک پڑتے ہی اس کی تفصیلات آشکار کر دیں گے۔ اس لیے امریکہ چاہتا ہے کہ باہمی رضا مندی سے ان رابطوں کے بارے میں موقع محل دیکھ کر عام اعلان کیا جائے۔
برف پگھلنے لگی۔۔۔
پاکستانی سیکرٹری خارجہ کی اس وضاحت سے چین کے تحفظات کچھ دور ہوئےاور اس کی طرف سے رازداری کا معاملہ پھر نہیں اٹھایا گیا۔
مئی 1971 کے آخری ہفتے میں چینی وزیرِ اعظم چو این لائی نے صدر نکسن کے نام پیغام میں انھیں چین آنے کی دعوت دی جسے صدر نکسن نے قبول کرلیا اور اس دورے کی تفصیلات طے کرنے کے لیے ہنری کسنجر کو بھیجنے کے بارے میں مطلع کر دیا۔ اس پیغام میں بھی کسنجر کے دورے کو خفیہ رکھنے پر زور دیا گیا تھا جس پر چین نے کوئی سوال نہیں اٹھایا۔
برف پگھلنا شروع ہوگئی تھی۔ چین نے کسنجر کے دورے کا خیر مقدم کیا اور اس بار مذاکرات کو صرف تائیوان تک محدود رکھنے پر اصرار بھی نہیں کیا۔ چین نے دورے کے لیے 15 سے 20 جون کے درمیان کا وقت تجویز کیا تھا اور یہ پیغام یکم جون کو پاکستانی دفترِ خارجہ کے ایک افسر کے ہاتھ امریکہ بھیجا گیا۔
ہنری کسنجر کے دورے کی رازداری کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی تاریخوں میں ردوبدل کیا گیا اور طے پایا کہ وہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے دورے سے واپسی پر اسلام آباد رکیں گے اور وہاں سے نو جولائی 1971 کو خفیہ طور پر بیجنگ پہنچیں گے۔
کسنجر کے اس دورے میں بنکاک، اسلام آباد، دہلی اور پیرس کو شامل رکھا گیا تھا۔ صدر نکسن نے یحییٰ خان کو آگاہ کر دیا تھا کہ اس دورے میں اسلام آباد اور دہلی کے لیے یکساں وقت رکھا گیا ہے تاکہ بھارت کو کوئی شک نہ ہو۔
واشنگٹن سے گرین سگنل ملنے کے بعد صدر یحییٰ خان نے چین کو اپنے پیغام میں واضح کردیا کہ ہنری کسنجر اور ان کے عملے کے چار افراد اور طیارے کا عملہ چینی حکومت کی ذمے داری ہو گی اور پاکستانی سفارت خانہ بھی ان انتظامات سے لاعلم رہے گا۔ اب سوال یہ تھا پاکستان سے بیجنگ تک کا سفر کیسے خفیہ رکھا جائے۔
خفیہ سفر کی تیاریاں
سلطان محمد خان کے مطابق طے یہ پایا تھا کہ ہنری کسنجر کو چکلالہ سے ایک پاکستانی بوئنگ طیارے کے ذریعے شاہراہ قراقرم کے اوپر سے بیجنگ لے جایا جائے گا۔
اس سفر کا فائدہ یہ تھا کہ عام طور پر پی آئی اے کی کمرشل پروازیں ڈھاکہ سے ہو کر چین جاتی تھیں اس طرح یہ وقت بھی بچایا جاسکتا تھا۔ چینیوں کو بھی اس تجویز سے اتفاق تھا۔
اس کے لیے چھوٹی چھوٹی تفصیلات پر کام کیا گیا۔پاکستان اور چین کے درمیان شمال کا ہوائی راستہ چوں کہ شاذ و نادر ہی استعمال میں آتا تھا اس لیے طے کیا گیا کہ چھ جولائی کو ایک تجرباتی اڑان کی جائے۔
اس فلائٹ کے لیے چین اپنے نیویگیشن کےماہرین کو پاکستان بھیجنے پر راضی ہوگیا تاکہ پاکستانی طیارہ چلانے والے عملے سے باہم رابطہ کرسکیں۔
چینی ماہرین کے ساتھ وزیرِ اعظم چو این لائی نے پاکستان میں سابق چینی سفیر چانگ وین کو بھی بھیجا تھا۔ وہ نہ صرف چینی دفترِ خارجہ کے یو ایس اے سے متعلق اعلیٰ افسر تھے بلکہ چو این لائی کے معتمد بھی تھے۔ سلطان محمد خان کے بقول ہنری کسنجر کو اس مشن کی اہمیت جتانے کے لیے انہیں بھیجا گیا تھا۔
راز داری برقرار رکھنے کے لیے ہنری کسنجر کو چین پہنچانے والے بوئنگ طیارے کے عملے کے افراد کا انتخاب مختلف علاقوں سے کیا گیا۔ان غیر معمولی انتظامات سے طیارے کے عملے کو ہونے والے تجسس کی تسلی کے لیے طیارے کے کپتان سے کہا گیا تھا کہ نو جولائی کو صدرِ پاکستان خفیہ دورے پر چین جائیں گے اس لیے یہ سب تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
ان انتظامات کا ایک اور دل چسپ پہلو یہ تھا کہ دورانِ پرواز کپتان اور نیویگیٹر کے درمیان ریڈیو رابطہ نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قراقرم کے اوپر سے گزرنے والے راستے پر بھارت اور روس کی مانیٹرنگ ہو سکتی تھی۔
لیکن یہاں ایک اور مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ہنری کسنجر کی اسلام آباد میں عدم موجودگی کو کیسے راز میں رکھا جائے گا۔ اس کے لیے طے پایا کہ ہنری کسنجر کو تھکن دور کرنے کی غرض سے اسلام آباد کے قریب واقع ہل اسٹیشن نتھیا گلی کے ریسٹ ہاؤس لے جانے کا پروگرام ترتیب دیا جائے گا۔
لیکن منصوبے کے مطابق نتھیا گلی میں اصل ہنری کسنجر نہیں جانے والے تھے بلکہ ان کے ہم شکل اسسٹنٹ کو پورے پروٹو کول کے ساتھ نتھیا گلی کے سرکاری ریسٹ ہاؤس پہنچانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ آگے چل کر اس منصوبے میں بھی ایک دل چسپ موڑ آنے والا تھا۔
دہلی سے اسلام آباد اور بیجنگ
ہنری کسنجر آٹھ جولائی کو اپنے عملے کے چار افراد کے ساتھ دہلی سے اسلام آباد پہنچ گئے۔ سلطان محمد خان اپنی کتاب ’چمن پہ کیا گزری: ایک سفارت کار کی سرگزشت‘ میں لکھتے ہیں کہ ہنری کسنجر نے انہیں بتایا دہلی میں ماحول بہت تلخ ہے اور ان کے خیال میں بھارت پاکستان کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔
جولائی 1971 تک مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ہو چکا تھا اور حالات مسلسل کشیدہ ہو رہے تھے۔
سلطان محمد خان بتاتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات صدر یحیی خان کو بھی بتائی لیکن ان کا مزاج اس وقت ساتویں آسمان پر تھا اور انہوں نے بھارت سے متعلق ہنری کسنجر کے اندازوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔
اس کے بعد یحییٰ خان ہنری کسنجر سے علیحدگی میں ملاقات کے لیے چلے گئے جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ سلطان محمد خان کے مطابق صدر سے بعد میں ان کی ہونے والی گفتگو سے انہیں یہی تاثر ملا کہ اس میں چین کے سفر کے علاوہ شاید ہی کوئی بات ہوئی ہو۔
سہ پہر ساڑھے تین بچے ہنری کسنجر اور ان کے ساتھیوں کو صدارتی مہمان خانے پہنچا دیا گا جہاں سے انہیں صبح ساڑھے چار بجے بیجنگ لے جانا تھا۔
سیکرٹری خارجہ سلطان محمد خان کو اب دو الگ الگ قافلے اپنی منزل کی جانب روانہ کرنے تھے جن میں سے ایک چکلالہ جانے والا تھا جس میں ہنری کسنجر اپنے عملے کے ساتھ بیجنگ جانے والے تھے جب کہ دوسرے قافلے میں ان کے ہم شکل اسسٹنٹ کو نتھیا گلی روانہ کیا گیا تھا۔
کسنجر اور آم
وہاں پاکستانی حکام کو ایک دل چسپ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ کسنجر کے ہم شکل اسسٹنٹ کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ لنچ میں شوق ہی شوق میں کوئی نصف درجن آم کھا بیٹھے ہیں جس کے بعد ان کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔
سلطان محمد خان کہتے ہیں کہ نہ صرف ان کے علاج کے لیے ڈاکٹر تلاش کرنا چیلنج تھا بلکہ ایسا ڈاکٹر تلاش کرنا تھا جو ہنری کسنجر کو پہنچانتا نہ ہو۔
پشاور میں ایک ڈاکٹر سے رابطہ کر کے کہا گیا کہ ایک مشہور شخصیت ہنری کسنجر کے علاج کے لیے ان کی خدمات درکار ہیں۔ کیا وہ انہیں جانتے ہیں۔
اتفاق ایسا تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحب نہ صرف کسنجر کو جانتے تھے بلکہ انہوں نے ان کی ایک آدھ کتاب بھی پڑھ رکھی تھی۔ پھر ایک اور ڈاکٹر سے رابطہ کیا گیا جو کسنجر کے نام سے واقف نہیں تھے اور اسی لیے انہیں علاج کے لیے بلا لیا گیا۔
سلطان محمد خان اپنی اہلیہ کے ساتھ نتھا گلی میں موجود ہنری کسنجر کی تیمار داری کے لیے پہنچ گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس دکھاوے کو حقیقت کے قریب تر دکھانے کے لیے دیگر ذرائع بھی استعمال کیے گئے۔
چیف آف اسٹاف عبدالحمید اور محکمۂ دفاع کے جنرل سیکرٹری غیاث الدین احمد نے بطور نمائش کسنجر کی خیریت دریافت کرنے کے لیے نتھیا گلی کے چکر کاٹے۔ لیکن حقیقت میں کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں ابھی ایک اور ٹوئسٹ آنے والاتھا۔
عملے کو قرنطینہ کردیا
اس دوران سیکرٹری خارجہ کے پرائیوٹ سیکرٹری احمد کمال کچھ ضروری کاغذات لے کر ان کے پاس ہیلی کاپٹر میں نتھیا گلی پہنچ رہے تھے کہ ان کا ہیلی کاپٹر اترتے وقت الٹ گیا لیکن کسی کو زیادہ چوٹ نہیں آئی۔
سلطان محمد خان لکھتے ہیں کہ دوسرے ہیلی کاپٹر کے آنے میں دیر تھی اس لیے دفتر خارجہ کو فون پرکمال کی اہلیہ کو مطلع کرنے کی ہدایت کی گئی تاکہ تاخیر کی وجہ سے وہ فکر مند نہ ہوں۔ ان کے بقول:"میرا اندازہ ہے کہ اس دوران بھارتی انٹیلی جینس نے ہمارے فون کو ٹیپ کیا تھا مگر ان کی تشریح درست نہیں تھی۔"
ان کے خیال میں نتھیا گلی میں ہونے والے رابطوں سے متعلق اسی وجہ سے شام کو آل انڈیا ریڈیو سے ایک خبر نشر ہوئی کہ ہنری کسنجر پاکستانی حکومت اور شیخ مجیب کے درمیان تنازع کا حل کرانے کے لیے پاکستان میں موجود ہیں۔
کسنجر 11 جولائی 1971 کو اپنا خفیہ دورۂ چین مکمل کرکے چکلالہ واپس پہنچ گئے ۔ روانگی کی طرح ان کی واپسی پر بھی طیارہ ہوائی اڈے کے اس خاص حصے میں اترا جو فضائی فوج کے لیے مخصوص تھا۔
سلطان محمد خان کے مطابق واپسی چوں کہ صبح ہوئی تھی اس لیے پی آئی اے کے طیارے کے فوجی پروازوں کے حصے میں اترنے سے شبہات جنم لے سکتے تھے لیکن اس طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔
لیکن تشویش برقرار تھی کہ پی آئی اے کا عملہ کہیں راز فاش نہ کردے۔ لہٰذااحتیاطاً اس عملے کو 15جولائی تک قرنطینہ میں رکھ دیا۔
ان سب انتظامات کی وجہ سے جب تک صدر نکسن نے اس دورے کا راز فاش نہیں کیا یہ خبر پاکستان سے لیک نہیں ہوئی۔
واپسی کے بعد ۔۔۔
سلطان محمد خان کےمطابق کسنجر جب طیارے سے اترے تو فرط مسرت سے بے قابو ہو رہے تھے۔ وہ چو این لائی سے ملاقات کے بارے میں خاصے جذباتی تھے۔ بار بار ان کی تعریف کررہے تھے۔ ان کی خوشی اس لیے بھی بجا تھی کہ اس خفیہ دورۂ چین سے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
صدر نکسن نے 15 جولائی 1971 کو اعلان کیا کہ وہ آئندہ برس چین کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ہنری کسنجر کے ڈرامائی انداز میں ہونے والے دورۂ چین کا بھی انکشاف کیا۔
صدر نکسن کے دورۂ چین کے اعلان کے بعد دونوں جانب سے خیر سگالی کا پیغام دینے کے لیے مختلف اقدامات سامنے آنے لگے۔ اسی برس چین نے اپنی ٹیبل ٹینس کی ٹیم امریکہ بھیجی۔ اکتوبر 1971 میں امریکہ نے اقوام متحدہ میں عوامی جمہوریہ چین کو رکنیت دینے کی حمایت کی۔
سن 1972 میں صدر نکسن نے 21 سے 28 فروری تک چین کا دورہ کیا۔ وہ ایسا کرنے والے امریکہ کے پہلے صدر تھے۔ اس دورے کے بعد دونوں ممالک نے شنگھائی اعلامیہ جاری کیا جس میں طے پانے والے نکات کی صورت میں بعد ازاں 1979 میں امریکہ اور چین کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے اور مستقبل کے امکانات کے دروازے کھلے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق صدر نکسن کی چین سے تعلقات قائم کرنے کی کوششوں نے عالمی سطح پر سرد جنگ کے تناظر کو تبدیل کر دیا جس کے نتیجے میں امریکہ اور سوویت یونین کے تعلقات کی کشیدگی بھی کم ہوئی۔
امریکہ نے اس دورے سے کئی مطلوبہ نتائج حاصل کیے لیکن اس کے انتظامات سے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سلطان محمد خان کی کتاب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان اس اہم سفارتی پیش رفت میں کردار ادا کرکے امریکہ اور چین سے 1971 کے مشکل حالات میں وہ مدد حاصل نہ کرسکا جس کی اس وقت کے فوجی حکمران یحیی خان اور ان کے ساتھی توقع کر رہے تھے۔
یہ تحریر پہلی بار جولائی 2023 میں اس وقت شائع کی گئی تھی جب ہینری کسنجر نے چین کا دورہ کیا تھا۔