یہ نو جنوری 1943 کی بات ہے جب امریکہ کے صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ ایک خصوصی ٹرین پر سوار ہوئے۔ دوسری عالمی جنگ جاری تھی اور جنگی حالات کے پروٹوکول کی وجہ سے صدر کی سفری تفصیلات خفیہ رکھی گئی تھیں۔
صدر روز ویلٹ جس ٹرین میں سوار تھے اس کا رُخ شمال کی جانب تھا۔ اس لیے ذرائع ابلاغ نے یہی خیال کیا کہ صدر ہائیڈ پارک نیویارک میں اپنے گھر جارہے ہیں۔بالٹیمور پہنچ کر صدر روز ویلٹ کا سفر خفیہ طور پر جنوب میں میامی کی طرف شروع ہو گیا۔
صدر کی منزل مراکش کا شہر کاسا بلانکا تھا جہاں وہ برطانیہ کے وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل سے ملنے کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔
فرینکلن ڈی روز ویلٹ لائبریری کے ڈائریکٹر پال ایم اسپیرو کے مطابق یہ سفر کئی اعتبار سے تاریخی تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب امریکہ کے صدر جنگ کے دوران ملک سے باہر سفر کر رہے تھے، صدر روز ویلٹ سے پہلے کسی صدر نے افریقہ کے کسی بھی ملک کا دورہ نہیں کیا تھا۔
اس کے علاوہ یہ وہ تاریخی موقع تھا جب فرینکلن روز ویلٹ ہوائی جہاز کے ذریعے بیرونِ ملک سفر کرنے والے پہلے امریکی صدر بننے جارہے تھے۔
طیارے سے سفر کیوں؟
صدر روز ویلٹ سے قبل امریکی صدور کے غیر ملکی دوروں کی تاریخ زیادہ طویل نہیں تھی۔ وہ خود اور ان کے پیش رو بیرونِ ملک سفر کے لیے بحری راستہ ہی اختیار کرتے تھے۔ لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ صدر کے لیے فضائی سفر کا فیصلہ کیا جارہا تھا۔
اتحادی قوتوں برطانیہ، امریکہ اور سوویت یونین اور محوری قوتوں جرمنی، جاپان اور اٹلی کے مابین 1939 میں دوسری عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی۔
یہ جنگ کئی خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ اتحادی افواج شمالی افریقہ میں کامیاب ہو رہی تھیں اور جرمنی کے مارشل ایرون رومیل کو ایک کے بعد ایک شکست کا سامنا تھا۔ اپنی جنگی مہارت کی وجہ سے صحرائی لومڑی (ڈیزرٹ فوکس) کہلانے والے ایرون کے پاؤں اکھڑ چکے تھے اور اب اتحادی فوج کے سامنے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ اگلا قدم کیا اٹھایا جائے۔
جنگ میں حتمی فتح حاصل کرنے کے لیے یہ اتحادی قوتوں کے لیے بہت اہم سوال تھا جس نے برطانیہ اور امریکہ کی قیادت کو مراکش میں جمع ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔
فرینکلن ڈی روز ویلٹ لائبریری کی ویب سائٹ کے مطابق صدر روز ویلٹ خود بھی بحری سفر کو پسند کرتے تھے اور اس بار ان کا مراکش پہنچنا بھی ناگزیر تھا۔ لیکن مراکش جانے کے لیے اگر وہ بحری سفر کرتے تو انہیں بحرِ اوقیانوس سے گزرنا پڑتا اور یہ بحری راستہ دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے اتحادیوں اور جرمن بحریہ کا میدانِ جنگ بنا ہوا تھا۔
اس سمندری میدانِ جنگ میں جرمن بحریہ اور خاص طور پر اس کی آبدوز 'وولٹ پیکس' کی دہشت بیٹھی ہوئی تھی۔ کیوں کہ گزرے کئی ماہ کے دوران یہ آبدوز سینکڑوں بار بردار جہازوں کو نشانہ بنا چکی تھی۔
برطانیہ کی رسد روکنے کے لیے جرمنی اوقیانوس میں اپنی بھرپور بحری قوت استعمال کر رہا تھا۔ ایسے حالات میں صدر روز ویلٹ کو جنگی یا مسافر بحری جہاز کے ذریعے بحر اوقیانوس سے افریقہ پہنچانا محفوظ راستہ نہیں تھا۔
بڑی سوچ بچار اور بحث کے بعد یہ طے پایا کہ صدر کو افریقہ تک لے جانے کا سب سے محفوظ طریقہ ہوائی سفر ہی ہوسکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس ہسٹری کے مطابق اسی سفر پر روانہ ہونے کے لیے روز ویلٹ ٹرین کے راستے میامی پہنچے تھے جہاں سے 11 جنوری 1943 کی صبح تقریباً چھ بجے ان کے مراکش کے لیے فضائی سفر کا آغاز ہوا۔
اس سفر میں صدر کے مشیر ہیری ہاپکنز، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ولیم ڈی لیہے، صدر کے معالج ریئر ایڈمرل روز مک انٹائٹر، معاونین اور سیکیورٹی پر مامور خفیہ اداروں کے ایجنٹس بھی ہمراہ تھے۔
ایک طویل سفر کا آغاز
صدر روز ویلٹ کی یہ پرواز 50 گھنٹوں پر محیط تھی جس میں انہوں نے سات ہزار میل کا سفر طے کرنا تھا۔ وہ اسپین اور برازیل سے ہوتے ہوئے 13 جنوری کو گیمبیا میں بیٹہرسٹ پہنچے۔ یہاں تک کا سفر انہوں نے بوئنگ کے تیار کیے ہوئے ہوئے طیارے 'ڈکسی کلیپر' پر طے کیا تھا۔ اس سفر میں انہوں نے بحرِ اقیانوس کے اوپر 2100 میل کی مسافت طے کی تھی۔
گیمبیا اس وقت برطانیہ کے کنٹرول میں تھا اور دریائے گیمبیا میں لنگر انداز امریکی بحریہ کا جہاز یو ایس ایس میمفس اپنے کمانڈر ان چیف کا منتظر تھا۔
گیمبیا میں مختصر قیام کے بعد صدر روز ویلٹ نے سی 54 ٹرانسپورٹ طیارے میں مراکش کا 1600 میل کا سفر طے کیا اور بالآخر 14 جنوری 1943 کو شام پانچ بجے وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔
کاسا بلانکا میں کیا ہوا؟
شمالی افریقہ میں مراکش کا شہر کاسا بلانکا جرمن بمبار طیاروں کی زد میں تھا۔ اس لیے وہاں ہونے والے اس اجلاس کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔ مراکش پہنچنے پر صدر کے بیٹے لیفٹننٹ کرنل ایلیٹ روزویلٹ ان سے ملے تھے لیکن انہیں بھی دورے کے مقاصد سے بے خبر رکھا گیا تھا۔
ہوٹل انفا میں ہونے والی کاسا بلانکا کانفرنس میں صدر روز ویلٹ اور برطانیہ کے وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل شریک ہوئے۔ سوویت یونین کے حکمران جوزف اسٹالن کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن سوویت فوجوں کے جرمنی کے خلاف محاذ پر مصروف ہونے کے باعث انہوں نے کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی۔
اس کانفرنس میں چند اہم فیصلے کیے گئے اور سب سے اہم بات یہ طے پائی کہ اتحادیوں میں سے کوئی محوری قوتوں میں شامل کسی ملک سے یک طرفہ جنگ بندی نہیں کرے گا اور جب بھی جنگ بندی ہوئی تو محوری ممالک کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ’آفس آف ہسٹورین‘ کی ویب سائٹ کے مطابق اس کانفرنس میں جرمنی اور جاپان کے خلاف اتحادی ممالک کی جنگی حکمتِ عملی طے کی گئی اور مختلف محاذوں پر لڑائی کو تیز کرنے پر اتفاق ہوا۔
پال ایم اسپرو کے مطابق اس کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں نے نہ صرف دوسری عالمی جنگ کے نتائج کا تعین کیا بلکہ جس دنیا میں آج ہم رہتے ہیں اس کے خد و خال وضع کرنے میں بھی اس اجلاس کا انتہائی اہم کردار تھا۔
کاسا بلانکا سے صدر روزویلٹ کی واپسی کا سفر قدرے سست روی سے طے ہوا۔ واپسی کے سفر کے دوران طیارے ہی میں انہوں نے 30 جنوری کو اپنی 61 ویں سالگرہ منائی اور اگلی شب وہ وائٹ ہاؤس پہنچے۔
کانفرنس سے متعلق خبریں 29 جنوری 1943 کو سامنے آنا شروع ہوئیں اور صدر روز ویلٹ کے فضائی سفر کو امریکہ میں ایک جرات مندانہ قدم کے طور پر دیکھا گیا۔
امریکہ کے صدر کے لیے تیارہ کردہ خاص طیارہ
وائٹ ہاؤس ہسٹوریکل ایسوسی ایشن کے مطابق صدر روز ویلٹ کے اس فضائی سفر کے دوران امریکہ کی فضائیہ کے کمانڈر جنرل ہینری آرنلڈ نے یہ محسوس کیا کہ جنگ کے دوران صدر کے سفر کے لیے سول طیاروں کے استعمال میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے ڈگلس اسکائے کرافٹ کمپنی سے ایک فوجی ڈیزائن کا طیارہ بنانے کے لیے رجوع کیا۔ اس طیارے کے ڈیزائن کی تیاری میں صدر کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھا گیا۔
'ڈگلس وی سی 54 سی اسکائے ماسٹر' وہ پہلا طیارہ تھا جو خاص طور پر امریکہ کے صدر کے لیے ڈیزائن کیا گیا۔ ایڈمرل لیہے نے اس طیارے کی سیکیورٹی اور پروٹول کی وجہ اسے 'سیکرڈ کاؤ' (مقدس گائے) کا نام دیا تھا۔
اس طیارے میں صدر کا ڈیسک، خصوصی کرسی، ٹیلی فون اور دیگر ضروریات مہیا کی گئی تھیں۔ طیارے میں صدر کے ڈیسک کے پاس کھڑکی کا گلاس بھی بلٹ پروف بنایا گیا تھا۔
صدر روز ویلٹ 1945 میں اس طیارے پر سوار ہوئے تھے اور یہ اس پر ان کا واحد سفر تھا۔ اس کے بعد یہ طیارہ 1947 تک صدر ٹرومین کے زیرِ استعمال رہا۔
صدر ٹرومین نے 1947 میں نیشنل سیکیورٹی ایکٹ منظور کیا جس کے بعد امریکہ کی فضائیہ آرمی سے علیحدہ ایک خود مختار فورس بن گئی۔ انہوں نے اس حکم نامے پر دستخط 'سیکرڈ کاؤ' نامی اسی طیارے میں کیے تھے۔
یہ طیارہ 1961 تک امریکی فضائیہ کے استعمال میں رہا اور اس کے بعد اسے 1983 میں اوہائیو میں قائم امریکی فضائیہ کے میوزیم میں پہنچا دیا گیا۔
ایئر فورس ون
تکنیکی اعتبار سے امریکی فضائیہ کے مختص کردہ جس طیارے پر امریکہ کے صدر سوار ہوں اسے 'ایئر فورس ون' کہا جاتا ہے۔ لیکن اب صرف صدر کے لیے تیار کیے گئے مخصوص طیاروں کے لیے ہی یہ نام استعمال کیا جاتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ کے مطابق اب یہ نام ایئر فورس کے فراہم کردہ صرف دو طیاروں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایئر فورس ون کے لیے تیار کیے گئے طیاروں کو دنیا کے جدید ترین آلات اور سہولتوں سے لیس کیا جاتا ہے۔
ایئر فورس ون کے طیاروں کی دیکھ بھال اور انتظام 'پریزیڈینشل ایئر لفٹ گروپ' کے ذمے ہوتی ہے جو وائٹ ہاؤس ملٹری آفس کا حصہ ہے۔ یہ ایئر لفٹ گروپ بھی ملک سے باہر پہلا فضائی سفر کرنے والے صدر روز ویلٹ نے 1944 میں قائم کیا تھا۔
سن 1959 تک امریکی صدور سفر کے لیے بوئنگ 707 طیارے استعمال کرتے رہے۔ 1962 میں صدر جون ایف کینیڈی وہ پہلے صدر تھے جو امریکی صدر کے لیے تیار کردہ 'ایئر فورس ون' جیٹ پر سوار ہوئے۔
تھیوڈور روزویلٹ سے فرینکلن روزویلٹ تک
صدر فرینکلن روزویلٹ بیرونِ ملک فضائی سفر کرنے والے امریکہ کے پہلے صدر ضرور تھے لیکن وہ ہوائی جہاز پر سوار ہونے والے پہلے صدر نہیں تھے۔ ان سے پہلے انہی کے دور کے کزن اور سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ 11 اکتوبر 1910 کو سینٹ لوئس میزوری میں ہونے والی ایک بین الاقوامی ایوی ایشن کانفرنس میں آرچی بالڈ نامی ہوا باز کے ساتھ ایک چھوٹے طیارے پر سوار ہوئے تھے۔
صدر تھیوڈور جس طیارے پر سوار ہوئے تھے وہ ہوائی جہاز کی بالکل ابتدائی شکل کے ماڈلز میں سے ایک تھی جب کہ صدر فرینکلن روز ویلٹ نے ڈکسی کلیپر نامی جس طیارے پر کاسا بلانکا کا سفر کیا تھا اسے خاص طور پر بحر اوقیانوس کو عبور کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
پین امریکن ورلڈ ایئر ویز نے 1930 کی دہائی میں طیارے بنانے والے ایسے ہوائی جہازوں کے لیے ڈیزائن طلب کے تھے جو طویل سفر کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے سیاٹل کی بوئنگ ایئر کرافٹ کمپنی کا 1936 میں جمع کرایا گیا ڈیزائن منظور ہوا اور پین امریکن (پین ایم) نے بوئنگ کو اس ڈیزائن کے چھ 314 کلپر طیارے بنانے کا آرڈر دیا۔ ان طیاروں کو 'پرواز کرنے والی کشتیاں' بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ یہ پانی پر اترنے اور پرواز بھرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔
اس کے بعد 28 جون 1939 کو تیار کیے گئے 12 بوئنگ 314 کلپرز میں سے ڈکسی کلپر نے پانچ ہزار تماشائیوں کی موجودگی میں اپنی پہلی پرواز بھری تھی۔
جب امریکی صدر کا غیر ملکی دورہ ناپسندیدہ ہوتا تھا
عالمی سطح پر اپنے اہم کردار کی وجہ سے امریکہ کے صدر کے کسی بھی ملک کے دورے کو انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ ایک عرصے تک امریکی صدور کے لیے بیرونِ ملک سفر کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا۔
اس کی ایک بڑی وجہ تو اس وقت دستیاب سفر کے ذرائع تھے۔ صدر وڈرو ولسن کو 1918 میں ایک دورے پر یورپ پہنچنے میں نو دن کا عرصہ لگا تھا۔
امریکی صدور کے سفر کی تاریخ مرتب کرنے والے پروفیسر رچرڈ ایلز نے اپنی کتاب 'پریزیڈینشل ٹریول' میں سفری ذرائع کے علاوہ صدور کے بیرونِ ملک سفر کی ناپسندیدگی کی ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ عام طور پر امریکی صدور یورپ کے دورے کرتے تھے جہاں بادشاہتیں قائم تھیں اور امریکہ میں یہ خدشہ پایا جاتا تھا کہ صدر بادشاہوں اور شاہی خاندانوں کے افراد سے ملاقاتوں اور ان کی مہمان نوازی سے مرعوب ہو سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جمہوری طور پر منتخب کوئی صدر اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنی بادشاہت قائم کرنے کے خواب دیکھ سکتا ہے۔
امریکی صدور کے بیرونِ ملک سفر سے متعلق یہ خدشات بھی پائے جاتے تھے کہ کسی ملک میں قیام صدر کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ لیکن آج دنیا میں امریکی صدر کے بیرونِ ملک دوروں کا تاثر اس کے برعکس ہے۔