ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروپ حزب اللہ نے جمعے کی صبح شمالی اسرائیل پر تقریباً 20 راکٹ فائر کیے، جس سے کئی اسرائیلی قصبوں میں لوگوں کو اپنے بچاؤ کے لیے پناہ گاہوں کا رخ کرنا پڑا۔
اسرائیل کی فوج نے کہا ہے کہ اس نے اپنے دفاعی نظام 'آئرن ڈوم' کے ذریعے 10 راکٹوں کا راستہ روک دیا، جب کہ 6 راکٹ کھلے علاقوں میں گرے۔ اسرائیل نے اس کے جواب میں توپ خانے سے گولہ باری کی۔
حزب اللہ نے کہا ہے کہ اس سے قبل اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملے کے جواب میں اس نے راکٹ فائر کیے ہیں، اس واقعہ سے اسرائیل کی شمالی سرحد پر کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
حزب اللہ کے چھوڑے گئے10 راکٹوں کو ہدف بنانے کے لیے اسرائیل کے آئرن ڈوم سے داغے جانے والے میزائلوں سے علاقہ گونج اٹھا۔ گولان کی پہاڑیوں اور شمالی اسرائیل کے کئی قصبوں کے رہائشیوں نے راکٹ حملوں سے بچنے کے لیے مختصر وقت کے لیے بنکروں میں پناہ لی۔
چھ راکٹ کھلے علاقوں میں گرے، جب کہ تین راکٹ اڑان بھرنے کے بعد راستے میں ہی لبنان کے علاقے میں گر گئے۔
اسرائیلی عہدے داروں نے کہا ہے کہ راکٹ حملوں سے کوئی اسرائیلی زخمی نہیں ہوا۔
ایران کے حمایت یافتہ شیعہ عسکری گروپ حزب اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے، بقول اس کے، کھلی جگہوں پر درجنوں راکٹ فائر کیے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ راکٹ فائرنگ اسرائیل کی جانب سے حالیہ فضائی حملوں کا جواب تھا۔
اسرائیل کی جانب سے کیے گئے فضائی حملے بھی اس سے قبل لبنان کی حدود سے فائر کیے جانے والے راکٹ حملوں کا جواب تھا۔
اسرائیل کے فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے پاس ہزاروں راکٹوں کا ذخیرہ موجود ہے، جن میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ بھی شامل ہیں، جن کی مدد سے وہ اسرائیل کے اندر ہر مقام کو نشانہ بنانے کے قابل ہو گیا ہے۔
اسرائیل کی ڈیفنس فورسز کے سابق کمانڈر بریگیڈیئر جنرل تزویکا ہیمووچ کا کہنا ہے کہا کہ اسرائیل نے راکٹوں کا حملہ روکنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ لیکن جنگ میں ہر راکٹ کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا کوئی فول پروف حل نہیں ہے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے جنگ یا تنازعوں میں ہر راکٹ کو اسرائیل کی حدود میں گرنے سے روک دیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کی دفاعی افواج، آئرن ڈوم سسٹم اور دفائی ایئر فورس کا بنیادی کام یہ ہے کہ اسرائیل کے اندر پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرے اور اسے کسی بڑے بحران سے محفوظ رکھے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت نہ تو اسرائیل اور نہ ہی حزب اللہ جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر زیادہ فکر مند ہے جہاں افراط زر قابو سے باہر ہے اور بجلی سے لے کر ادویات تک ہر چیز کی قلت ہے۔
جنوبی لبنان کے زیادہ تر حصے پر حزب اللہ کا کنٹرول ہے اور وہ لبنان کی حکومت میں شراکت دار ہے۔