اسرائیلی فوج نے ایک روز قبل اپنے علاقے میں راکٹ فائر کیے جانے کے جواب میں جمعرات کے روز لبنان پر فضائی حملے کیے جس کی تصدیق لبنانی عہدے داروں نے کی ہے۔
ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کےجیٹ طیاروں نے ان جگہوں کو نشانہ بنایا جہاں سے ایک روز قبل راکٹ داغے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور علاقے کو بھی ہدف بنایا گیا جہاں سے ماضی میں اسرائیل پر حملہ ہوا تھا۔
اسرائیل نے لبنان کی حکومت پر گولاباری کا الزام لگاتے ہوئے انتباہ کیا کہ "وہ مستقبل میں اسرائیلی شہریوں اور اسرائیل کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے سے باز رہے"۔
اسرائیل کی جانب سے لبنان پر فضائی حملہ ایک طویل مدت کے بعد ہوا ہے۔
لبنان کے جنوبی حصے میں رات کو کیےجانے والے فضائی حملے سیاسی طور پر حساس وقت میں جارحیت کا اقدام سمجھے جائیں گے۔ آٹھ جماعتی اتحاد پر مشتمل اسرائیل کی نئی حکومت غزہ کی حکمرانی کرنے والے عسکری گروپ حماس کے ساتھ مئی میں 11 روزہ لڑائی کے بعد جنگ بندی کے ایک کمزور معاہدے کے تحت امن قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کئی واقعات نے، جن میں اس ہفتے لبنان کے اندر سے راکٹ فائر کیے جانے کا واقعہ سب سے نمایاں ہے، اسرائیل کی شمالی سرحد پر توجہ مرکوز کروا دی ہے اور امریکہ نے فوری طور پر اسرائیل پر حملوں کی مذمت کی ہے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب لبنان متعدد بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے، جن میں تباہ کن اقتصادی اور مالی بحران اور سیاسی تعطل بھی شامل ہے جس کی وجہ سے ایک سال سے ملک کسی فعال حکومت کے بغیر چل رہا ہے۔
لبنان کے صدر مائیکل عون نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے لبنانی بستیوں کو ہدف بنانے کے لیے فوج کا استعمال 2006 کے بعد سے اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس سے لبنان کے خلاف جارحانہ ارادوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ صدر عون کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو اس حملے کی شکایت کریں گے۔
اسرائیل اور لبنان کے عسکری گروپ حزب اللہ کے درمیان 2006 میں ایک مہینے تک جنگ ہوئی تھی جس میں لبنان کے 1200 سے زیادہ افراد،جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ اسرائیل کا جانی نقصان 160 تھا، جن میں زیادہ تر فوجی تھے۔ یہ لڑائی لبنانی عسکری گروپ کے راکٹ حملوں کے خطرے کو ختم کرنے میں ناکام ہو گئی تھی اور اسرائیلی عہدے دار کہتے ہیں کہ حزب اللہ نے راکٹوں کے اپنے ذخائر مزید بڑھا لیے ہیں اور اب وہ حقیقتاً اسرائیل کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنانے کے قابل ہو چکا ہے۔
ابھی تک کسی نے لبنان سے راکٹ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی حزب اللہ نے اس واقعہ پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔ حزب اللہ کے کنڑول میں کام کرنے والے ٹیلی وژن، المنار نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ فضائی حملے جمعرات کو رات دو بجے کے لگ بھگ ہوئے، جس میں مرجعیون ضلع کے ایک گاؤں محمودیہ کے ایک خالی علاقے کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فوج کے عربی زبان کے ترجمان افیخائی ادراعی نے کہا ہے کہ لبنان کی حدود میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہاں کی حکومت اس کی ذمہ دار ہے اور اسے جنوبی اسرائیل پر حملوں سے باز رہنے سے خبردار کیا۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ دو راکٹ اسرائیلی علاقے میں گرے جس کا جواب لبنان میں توپ خانے کی گولاباری سے دیا گیا۔
چینل 12 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے ایک راکٹ ایک کھلے علاقے میں گرا جب کہ دوسرے راکٹ کو اسرائیل کے ڈیفنس سسٹم 'آئرن ڈوم' نے ناکارہ بنا دیا۔
لبنان کی فوج نے کہا ہے کہ اسرائیل کے توپ خانے سے 92 گولے داغے گئے، جس سے راشدہ الفخر نامی گاؤں میں آگ بھڑک اٹھی۔ لبنانی فوج کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے کئی نئی چوکیاں قائم کر کے سرحدی علاقے میں گشت شروع کر دیا ہے اور راکٹ فائر کیے جانے کے واقعہ کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے لبنان سے داغے جانے والے راکٹ حملے کی مذمت کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیل کو اس طرح کے حملوں کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے"۔
انہوں نے واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ خطے میں صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ بدستور رابطے میں رہے گا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا ہے کہ لبنان میں اقوام متحدہ کے امن مشن کو راکٹ داغے جانے اور اسرائیل کے توپ خانے کی گولاباری کے واقعہ کا علم ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان میں قیام امن کے اقوام متحدہ کے مشن کے کمانڈر میجر جنرل سٹیفانو ڈی کول نے جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے دونوں فریقوں پر زور دیا کہ وہ تنازع کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں۔