واشنگٹن —
لبنان کی شیعہ مسلح تنظیم 'حزب اللہ' نے اعلان کیا ہے کہ تنظیم کے جنگجو اس وقت تک شام میں صدر بشار الاسد کی فوج کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف لڑتے رہیں گے جب تک اس کی ضرورت ہے۔
جمعرات کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں عاشورہ کے موقع پر جمع ہونے والے ہزاروں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے 'حزب اللہ' کے سربراہ حسن نصر اللہ نے کہا کہ جب تک شام میں لڑائی کی وجوہات برقرار ہیں اس وقت تک حزب اللہ وہاں موجود رہے گی۔
شام میں صدر بشار الاسد کی فوجوں کو سنی العقیدہ باغیوں کے خلاف جاری لڑائی میں 'حزب اللہ' کے ہزاروں مسلح اور تربیت یافتہ جنگجووں کی مدد حاصل ہے۔
لبنانی جنگجووں کی مدد کے طفیل شام کی سرکاری افواج کو گزشتہ ایک برس کے دوران میں باغیوں کے خلاف کئی اہم کامیابیاں ملی ہیں۔
'حزب اللہ' کے جنگجو شام کے سرحدی قصبے قصیر کا قبضہ باغیوں سے چھڑانے کے لیے چند ماہ قبل کی جانے والی کاروائی میں بھی آگے آگے تھے جن میں سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت کے دعوے سامنے آئے تھے۔
اس کے علاوہ لبنانی شیعہ تنظیم کے جنگجو دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں اور شمالی شہر حلب میں بھی باغیوں کے خلاف لڑائی میں سرکاری فوجی دستوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔
جمعرات کو عاشورہ کے جلوس سے خطاب کرتے ہوئے حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ان کے جنگجو شام پر ہونے والے بین الاقوامی، علاقائی اور "تکفیری" حملوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ "تکفیری" کی اصطلاح ان سخت گیر سنی مسلمانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو دوسرے مسلمانوں کو گمراہ تصور کرتے ہیں اور ان سے لڑائی اور ان کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔
'حزب اللہ' کی شام میں موجودگی کے باعث لبنان کی سیاسی صورتِ حال بھی سخت کشیدہ ہے اور ملک میں شیعہ اور سنی کشیدگی بھی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔
اپنے خطاب میں حسن نصر اللہ نے خبردار کیا کہ وہ لبنان میں جاری سیاسی بحران کے حل کی کسی ایسی کوشش کی حمایت نہیں کریں گے جس میں ان کی جماعت سے شام سے انخلا کا مطالبہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 'حزب اللہ' چند "غیر ضروری وزارتوں کے لیے خطے کے مستقبل کا سودا نہیں کرے گی"۔
خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ حزب اللہ کی شام میں مداخلت کے باعث شام میں لگی خانہ جنگی کی آگ لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے جس سے پورا خطہ متاثر ہوگا۔
جمعرات کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں عاشورہ کے موقع پر جمع ہونے والے ہزاروں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے 'حزب اللہ' کے سربراہ حسن نصر اللہ نے کہا کہ جب تک شام میں لڑائی کی وجوہات برقرار ہیں اس وقت تک حزب اللہ وہاں موجود رہے گی۔
شام میں صدر بشار الاسد کی فوجوں کو سنی العقیدہ باغیوں کے خلاف جاری لڑائی میں 'حزب اللہ' کے ہزاروں مسلح اور تربیت یافتہ جنگجووں کی مدد حاصل ہے۔
لبنانی جنگجووں کی مدد کے طفیل شام کی سرکاری افواج کو گزشتہ ایک برس کے دوران میں باغیوں کے خلاف کئی اہم کامیابیاں ملی ہیں۔
'حزب اللہ' کے جنگجو شام کے سرحدی قصبے قصیر کا قبضہ باغیوں سے چھڑانے کے لیے چند ماہ قبل کی جانے والی کاروائی میں بھی آگے آگے تھے جن میں سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت کے دعوے سامنے آئے تھے۔
اس کے علاوہ لبنانی شیعہ تنظیم کے جنگجو دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں اور شمالی شہر حلب میں بھی باغیوں کے خلاف لڑائی میں سرکاری فوجی دستوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔
جمعرات کو عاشورہ کے جلوس سے خطاب کرتے ہوئے حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ان کے جنگجو شام پر ہونے والے بین الاقوامی، علاقائی اور "تکفیری" حملوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ "تکفیری" کی اصطلاح ان سخت گیر سنی مسلمانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو دوسرے مسلمانوں کو گمراہ تصور کرتے ہیں اور ان سے لڑائی اور ان کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔
'حزب اللہ' کی شام میں موجودگی کے باعث لبنان کی سیاسی صورتِ حال بھی سخت کشیدہ ہے اور ملک میں شیعہ اور سنی کشیدگی بھی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔
اپنے خطاب میں حسن نصر اللہ نے خبردار کیا کہ وہ لبنان میں جاری سیاسی بحران کے حل کی کسی ایسی کوشش کی حمایت نہیں کریں گے جس میں ان کی جماعت سے شام سے انخلا کا مطالبہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 'حزب اللہ' چند "غیر ضروری وزارتوں کے لیے خطے کے مستقبل کا سودا نہیں کرے گی"۔
خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ حزب اللہ کی شام میں مداخلت کے باعث شام میں لگی خانہ جنگی کی آگ لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے جس سے پورا خطہ متاثر ہوگا۔