رسائی کے لنکس

القاعدہ رہنما کی جانب سے 'حجاب گرل' کی حمایت پر بھارت میں نئی بحث چھڑ گئی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی جانب سے مبینہ ویڈیو پیغام میں بھارتی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والی مسلمان طالبہ مسکان خان کی تعریف پر اُن کے والد اور مسلم تنظیموں نے مذمت کی ہے۔

مسکان کے والد محمد حسین خان نے جمعرات کو کرناٹک کے قصبے مانڈیا میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد گروپ کے رہنما کی جانب سے ان کی بیٹی کا نام لینا غلط ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اور ان کے اہلِ خانہ بھارت میں امن و سکون سے رہ رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی ایک رپورٹ کے مطابق مسکان کے والد نے کہا کہ ہم اس ویڈیو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ شخص کون ہے۔ ہم نے آج پہلی بار ان کو دیکھا ہے۔ وہ عربی زبان میں کچھ کہہ رہے ہیں۔

مسکان خان کے والد کا کہنا تھا کہ الظواہری کی جانب سے اُن کی بیٹی کی تعریف پر اُنہیں غیر ضروری پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بھارت کی سرکردہ مسلم شخصیات اور تنظیموں نے محمد حسین خان کے اس بیان کی تائید اور الظواہری کی مذمت کی ہے۔

خیال رہے کہ فروری میں ریاست کرناٹک کے شہر مندیا کے پری یونیورسٹی کالج میں زعفرانی رنگ کے رومال گلے میں لپیٹے چند ہندو نوجوانوں نے ایک باحجاب طالبہ مسکان کو ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔ نوجوانوں نے طالبہ کے سامنے کھڑےہو کر 'جے شری رام' کے نعرے لگائے اور طالبہ نے ان نعروں کا جواب 'اللہ اکبر' کے نعرے سے دیا۔ اسی اثنا میں کالج کا عملہ طالبہ کو لڑکوں کے نرغے سے دور لے گیا۔

ایمن الظواہری کی موت کی افواہیں مسلسل گردش کرتی رہی ہیں لیکن منگل کو سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں جس کا ترجمہ سائٹ انیٹلی جنس گروپ نے کیا ہے ، القاعدہ کےسربراہ مسکان خان کی تعریف کررہے ہیں ۔

'الظواہری کے بیان سے طالبہ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا'

ملک کے معروف ماہر اسلامیات اور مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق صدر پروفیسر اختر الواسع نے ایمن الظواہری کے بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ الظواہری نے مذکورہ بیان مسلم طالبہ مسکان خان اور ان کے مقصد کو نقصان پہنچانے کے لیے دیا ہے، فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اختر الواسع کا کہنا تھا کہ الظواہری کے بیان سے مسکان کے عمل اور جس مقصد کے لیے اس نے احتجاج کیا تھا اس کو نقصان پہنچے گا۔

ان کے مطابق اس سے بھارت میں اسلام اور مسلم دشمن طاقتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ اس لیے ہم الظواہری کے بیان سے خود کو الگ کرتے اور اس بیان کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔

پروفیسر اختر الواسع, الظواہری کے بیان سے خود کو الگ کرنے پر محمد حسین خان کو مبارکباد دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے فوری طور پر جو ردِعمل ظاہر کیا وہ بالکل مناسب ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم عالم اسلام کے ذمہ داروں سے دست بستہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھار ت کے مسلمانوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے دیں اور انہیں اپنے مقصد کے لیے جد و جہد کرنے دیں۔ ان کے بقول ہمیں صرف اللہ کی نصرت درکار ہے کسی اور کی نہیں۔

'الظواہری جیسے دہشت گردوں کی حمایت کی ضرورت نہیں'

تقریباً دو درجن مسلم تنظیموں کے واحد وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا بھی کہنا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو الظواہری یا ان جیسے دہشت گردوں کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔



مشاورت کے صدر نوید حامد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ الظواہری کا یہ بیان بھارت کے مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے نہیں بلکہ اپنی شہرت کے لیے ہے۔

خیال رہے کہ الظواہری کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب کرناٹک میں ہندوؤں کے مذہبی تہوار کے موقع پر مسلم دکانداروں کا معاشی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ بعض ہندو تنظیموں کی جانب سے حلال گوشت اور لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر بھی پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

قبل ازیں کرناٹک کے وزیرِ داخلہ اراگا جنانیندرا نے حجاب تنازع پر ایک بیان میں کہا تھا کہ اس احتجاج کے پیچھے نادیدہ اور بیرونی طاقتیں ہیں۔ اب وہ الظواہری کے بیان کو اپنے شبہے کی تائید میں دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے بنگلور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی خصوصی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ہائی کورٹ نے بھی کہا ہے کہ احتجاجی طالبات کی زبان اور رویہ فطری نہیں ہے، اس کے پیچھے کچھ لوگ ہیں۔

جنانیندرا کے بقول میں نے بار بار کہا ہے کہ اس معاملے میں فرقہ پرست طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ اب یہ بات ثابت ہو گئی ہے۔

ان کے مطابق ہمیں اس بات سے صدمہ پہنچا ہے کہ یہ معاملہ کس طرح عالمی اسٹیج پر پہنچ گیا۔ یہاں کی مرکزی اور ریاستی حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ ہم اس معاملے میں عالمی تعلق کی تحقیقات کریں گے۔

بعض مسلم شخصیات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ الظواہری کے بیان سے مسلم دشمن طاقتیں فائدہ اٹھائیں گی۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس معاملے کو نظرانداز کرنا چاہیے اور کوئی رد ِعمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔

پروفیسر اختر الواسع نے ریاستی وزیر داخلہ کے بیان کی روشنی میں کہا کہ الظواہری کا یہ بیان اسلام دشمن اور مسلم دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔

ان کے بقول ہم ان کے بیان کی اس لیے مذمت نہیں کر رہے ہیں کہ ان کا یہ بیان بھارت کے موجودہ ماحول میں مناسب نہیں ہے بلکہ اس لیے بھی کر رہے ہیں کہ ہم الظواہری کے نظریات و خیالات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ایمن الظواہری جس قسم کے اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں وہ ہمیں قابلِ قبول نہیں ہے۔ وہ انتہاپسندی اور علیحدگی پسندی کی تبلیغ کرتے اورتعلیم دیتے ہیں۔ وہ تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

نوید حامد وزیر داخلہ کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت کی وہ مسلم دشمن طاقتیں جن کے نظریات داعش اور القاعدہ سے کم خطرناک نہیں ہیں، اس بیان کو ملک میں مزید انتشار پیدا کرنے کے لیے استعمال کریں گی۔

ان کے بقول الظواہری اسلام اور مسلمانوں کے کتنے ہمدرد ہیں اس کا اندازہ ان کی پالیسیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مسلم ممالک میں انتشار پیدا کیا اور دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے لاتعداد مسلمانوں کو ہلاک کیا ہے۔

بعض مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں نے ایمن الظواہری کے بیان پر ردِعمل ظاہر کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ ایک بہت نازک معاملہ ہے۔

'ایمن الظواہری بھارت میں ایسے معاملات کی حساسیت سے واقف نہیں'

البتہ بعض دیگر مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایمن الظواہری جیسے لوگ بھارت میں ایسے معاملات کی حساسیت سے واقف نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر خاموش رہیں، کوئی رد عمل ظاہر نہ کریں۔ کیونکہ وہ جو کچھ بھی بولیں گے تو مسلم دشمن طاقتیں اس کا غلط مطلب نکالیں گی اور فائدہ اٹھائیں گی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت اور دیگر ملکوں کے علما نے بھی القاعدہ اور داعش کے اسلامی نظریات کی تائید نہیں کی ہے۔ انہوں نے ان کی تشدد پسند پالیسیوں کی مخالفت اور مذمت کی ہے۔ ہم الظواہری کے اس بیان کی حمایت نہیں کر سکتے۔

خیال رہے کہ ایمن الظواہری نے تقریباً نو منٹ کی ایک ویڈیو میں اپنے کالج میں زعفرانی رومال والے طلبہ کی جانب سے پریشان کیے جانے کے جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ لگانے پر مسکان خان کی ستائش کی تھی اور اسے بہن قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف احتجاج کریں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG