سری لنکا میں سنگین معاشی صورتِ حال اب ایک آئینی بحران میں تبدیل ہو چکی ہے۔ صدر نے عوامی مظاہروں اور احتجاج کے بعد گزشتہ ہفتے نافذ کی گئی ایمرجنسی کا حکم نامہ واپس لے لیا ہے جب کہ ان کے بھائی اور وزیراعظم مہندا راجا پکسے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت بھی کھو چکے ہیں۔
منگل کو درجنوں ارکان پارلیمنٹ نے حکومت سے اپنے راستے الگ کرنے کا اعلان کیا تھا جب کہ اپنی تقرری کے چند روز بعد ہی وزیرِ خزانہ علی صبری بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ انہیں حالیہ معاشی بحران میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے طویل المدتی پروگرام پر مذاکرات کے لیے وزیرمقرر کیا گیا تھا۔
گزشتہ جمعے کو صدر گوتا بایا راجا پکسے نے بدترین معاشی بحران کے باعث ہونے والے پُر تشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔عوامی سطح پر جنم لینے والی بے چینی کے باعث صدر نے ایک متحدہ حکومت بنانے کے لیے دو روز قبل کابینہ تحلیل کردی تھی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق معاشی بحران سے نمٹنے میں حکمران خاندان کی ناکامی کے باعث سری لنکا میں بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ ملک میں خوراک اور ایندھن کی قلت ہے اور بجلی کی بندش کا بھی سامنا ہے۔ ڈاکٹروں کی ایک تنظیم نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ دواؤں کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے اور صحتِ عامہ کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوسکتا ہے۔
ان حالات میں مبصرین کا کہنا ہے کہ سری لنکا پر حکومت کرنے والے راجا پکسے خاندان کا اقتدار خطرے میں پڑ گیا ہے۔
راجا پکسے خاندان کا اقتدار
مہندا راجا پکسے 2020 کا الیکشن جیتنے کے بعد وزیرِ اعظم بنے تھے جب کہ ان کے بھائی گوتابایا راجا پکسے 2019 میں ملک کے صدر بن چکے تھے۔ 2021 میں انہوں نے اپنے تیسرے بھائی باسل راجا پکسے کو وزیرِِ خزانہ مقرر کیا تھا جس کے بعد سری لنکا کی حکومت پر راجا پکسے خاندان کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی تھی۔
سری لنکا کے جنوب میں بدھ مذہب ماننے والوں کے اکثریتی آبادی رکھنے والے علاقے میں نو بہن بھائیوں پر مشتمل راجا پکسے سری لنکا کاایک نمایاں سیاسی خاندان ہے۔ 2005میں اس خاندان سے تعلق رکھنے والے مہندا راجا پکسے ملک کے صدر منتخب ہوئے اور 2015 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران ان کے بھائی اور دیگر قریبی عزیز مختلف اہم سرکاری عہدوں پر رہے۔
موجودہ صدر گوتابایا راجا پکسےخاندان میں پانچویں نمبر پرہیں۔ انہوں نے 1971 میں سری لنکا کی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔ فوج میں انہوں نے سری لنکا میں جاری تامل باغیوں کی شورش کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد گوتابایا امریکہ منتقل ہوگئے اور برسوں بعد 2005 میں سری لنکا واپس آئے اور اپنے بھائی مہندا کی حکومت میں سیکریٹری دفاع کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔ اس دوران انہوں نے سری لنکا میں جاری خوں ریز خانہ جنگی ختم کرنے کی کوششوں کی نگرانی کی جس میں مجموعی طور پر 80 ہزار سے ایک لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔
اقوامِ متحدہ نے سری لنکا میں ہونے والی خانہ جنگی میں شریک فریقوں پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا اور گوتابایا کو دورانِ جنگ مبینہ ظالمانہ کارروائیوں کی بنا پر ملک میں عدالتی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تاہم ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے اور سیاسی استثنیٰ کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمات ختم کردیے گئے۔
راجاپکسے خاندان سےمتعلق مبینہ کرپشن کے الزامات اور اسکینڈل سامنے آنے کے بعد مہندا راجاپکسے کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور ان کی کابینہ کے سابق وزیر میتھر پالا سری سینا صدر منتخب ہوئے اور انہوں نے آئین میں دو سے زیادہ مرتبہ صدر بننے پر پابندی شامل کر دی۔
سن 2019 میں سری لنکا میں ایسٹر سنڈے کے موقعے پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کے بعد ملک میں قوم پرستی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں راجا پکسے خاندان ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہوا۔ دو مرتبہ سے زائد صدر منتخب ہونے کی پابندی کی وجہ سے اس بار گوتابایا راجاپکسے نے صدارتی الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت حاصل کرکے کام یاب ہوئے۔ ان کی جماعت ’پودوجانا پرامونا‘ پارٹی نے حزب اختلاف کا صفایا کردیا اور اگلے ہی برس گوتابایا کے بھائی مہندا راجا پکسے پارلیمنٹ کے انتخابات کے نتیجے میں وزیرِ اعظم بن گئے۔
معاشی پالیسیاں
سال 2019 میں سری لنکا میں صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر گوتابایا راجا پکسے نے بڑے پیمانے پر ٹیکس کٹوتیوں کا اعلان کیا تھا۔ ان اقدامات کے تحت ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو تقریباً نصف کر دیا گیا تھا۔
’رائٹرز‘ کے مطابق ٹیکس میں اتنی بڑی کمی کا یہ فیصلہ بہت اچانک تھا اور مرکزی بینک کے بعض عہدے داروں کو بھی اس سے بے خبر رکھا گیا تھا۔
حکومت کے مطابق ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے یہ ٹیکس کٹوتی کی گئی تھی۔ 2009 میں تامل علیحدگی پسندوں سے طویل خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد موجودہ صدر کے بھائی اور موجودہ وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے نے بھی ٹیکسوں میں کٹوتی کی تھی۔
موجودہ حکومت کے ٹیکس کٹوتی سے متعلق فیصلوں کے ناقدین کا کہنا تھا کہ بیرونی ادائیگیوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے باوجود ٹیکس میں کمی کرنے سے ملکی آمدن متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ 2019 میں حکومت نے قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے جو منصوبہ بنایا تھا وہ بھی اس فیصلے کی وجہ سے قابلِ عمل نہیں رہا۔
ٹیکس میں کمی کے اس فیصلے کے کچھ ہی عرصے بعد کرونا کی عالمی وبا پھیل گئی۔ وبا کے باعث دنیا بھر میں سفری پابندیاں عائد ہونے لگیں اور سیاحت پر انحصار کرنے والے سری لنکا کی معیشت اس سے بری طرح متاثر ہوئی۔
گرفت کمزور پڑ رہی ہے
ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کے باعث درآمدی ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے خوراک اور ایندھن کی قلت پرحکومت کے خلاف پچھلے ماہ شروع ہونے والے عوامی مظاہروں میں گزشتہ چند روز سے شدت آنا شروع ہوگئی ہے۔ جس کے بعد کئی مقامات پر پرتشدد احتجاج اور پولیس کے ساتھ مظاہرین کے تصادم کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔
عوامی احتجاج کے باعث رفتہ رفتہ راجا پکسے خاندان کی گرفت حکومت پر کمزور پڑ رہی ہے۔ اتوار کو وزیرِ اعظم کے بھائی باسل نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ معاشی بحران سے پہلے سری لنکا میں کوئی صدر سے مستعفی ہونے کے مطالبے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں اکثریت ختم ہونے کی وجہ سے صدر اپنے بھائی مہندا راجا پکسے کی جگہ کسی اور کو وزیرِ اعظم بنا سکتے ہیں یا ممکنہ طور پر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں۔ سری لنکا میں پارلیمانی انتخابات 2025 میں منعقد ہونا تھے۔ لیکن تاحال مستقبل کی صورتِ حال واضح نہیں ہے۔گزشتہ روز درجنوں مظاہرین نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو کر پُر امن احتجاج بھی کیا تھا۔
معاشی حالات کی سنگینی
مالی وسائل کی ممکنہ قلت کے پیشِ نظر سری لنکا نے پہلے ہی اوسلو اور بغداد میں عارضی طور پر اپنے سفارت خانے بند کردیے ہیں جب کہ 30 اپریل سے سڈنی میں بھی اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سری لنکا کی وزارتِ خارجہ کے مطابق معاشی صورت حال اور کرنسی کی دستیابی میں مسائل کی وجہ سے ملک کی سفارتی نمائندگی کے ڈھانچے میں تبدیلی لائی جارہی ہے۔
ملک گیر سطح پر 16 ہزار ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم گورنمنٹ میڈیکل آفیسر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ جان بچانے والی دواؤں سمیت دیگر ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
تنظیم نے وزارتِ صحت کو اپنے خط میں آگاہ کیا ہے کہ صورتِ حال برقرار رہنے کی صورت میں صحتِ عامہ کا نظام تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔خط میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ طبی سامان اور ادویہ کی قلت کے باعث انسانی جانیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
آئینی بحران
حکمران جماعت نے حکومتی پارٹی چھوڑنے والے 41 ارکان کے نام جاری کردیے ہیں۔ اس کے بعد سے یہ آزاد ارکان ہوگئے ہیں۔ جب کہ حکومت 225 کے ایوان میں مطلوبہ 113 ارکان کی اکثریت سے محروم ہوگئی ہے۔
اگرچہ تاحال ایوان میں حکومت کو حاصل عددی حمایت کی تصدیق کے لیے ارکان کی گنتی نہیں ہوئی ہے اور راجا پکسے کی اقلیتی حکومت برقرار ہے لیکن فیصلہ سازی ایک نیا چیلنج بن گئی ہے۔ جب کہ آزاد ارکان چاہیں تو ایوان میں کسی حکومتی اقدام یا تجویز کی حمایت کرسکتے ہیں۔
حکومت مخالف مظاہروں میں شریک آئینی ماہر لوئی نرنجن گنیش ناتھن کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اکثریت کھو چکی ہے تو ممکن ہے کہ اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد لے کر آئے۔ لیکن اس کے لیے ایک طویل پارلیمانی طریقۂ کار ہے جس کے نتائج آنے میں وقت لگے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو جاتی ہے اور کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو صدر کو نیا وزیرِ اعظم مقرر کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اپوزیشن پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے لیے قرار داد پیش کرکے نئے الیکشن کا مطالبہ بھی کرسکتی ہے۔
’عوام تبدیلی چاہتے ہیں‘
سری لنکا فریڈیم پارٹی کے سربراہ میتھری پالا سری سینا نے راجا پکسے کے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔ ابتدائی طور پر انہوں ںے صدر اور وزیرِ اعظم سے ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کے جامع منصوبہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتیں عوامی غم و غصے کو بنیاد بنا کر دونوں بھائیوں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہیں۔
حزبِ اختلاف نے صدر کی جانب سے پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں پر مشتمل متحدہ حکومت بنانے کی تجویز کو پہلے ہی مسترد کردیا ہے۔
حزب اختلاف میں شامل جماعت ’سماگی جنا بالاویگیا‘ کے لیڈر سجیت پریماداسا کا کہنا ہے اب ہر جانب ایک ہی مطالبہ نظر آتا ہے کہ تبدیلی آنی چاہیے۔ عوام چاہتے ہیں کہ صدر اور وزیرِ اعظم اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق راجا پکسے حکومت میں ہائی ویز کے وزیر جونسٹن فرنانڈو نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن استعفی نہیں دیں گے۔ اپوزیشن کی تنقید کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن کیا ہمیں یاد لانا پڑے گا کہ صدر کو 69 لاکھ لوگوں نے ووٹ دیے ہیں۔
اس تحریر میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے حاصل کی گئی معلومات بھی شامل ہے۔