رسائی کے لنکس

حنا ربانی کھر کی بنگلہ دیشی وزیرِ خارجہ سے ملاقات؛ کیا دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟


پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے خارجہ اُمور حنا ربانی کھر اور بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ اے کے عبدالمومن کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔ مبصرین دونوں ملکوں کے تعلقات میں حالیہ تناؤ کے تناطر میں اس ملاقات کو اہم قرار دے رہے ہیں۔

سری لنکا کے 75 ویں یومِ آزادی کی تقریب میں شرکت کے دوران ہونے والی اس ملاقات میں سرکاری بیان کے مطابق معیشت، تجارت اور دو طرفہ تعاون پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کو ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو خالدہ ضیا یا حسینہ واجد حکومت میں فرق کے بجائے بنگلہ دیش کے ساتھ ریاستی سطح پر تعلقات رکھنے چاہئیں۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے رابطوں کے بعد ایک عرصہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات تعطل کا شکار تھے اور ایک عرصہ تک بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمشنر بھی تعینات نہیں تھا لیکن اب دونوں ممالک ایک بار پھر رابطوں میں آرہے ہیں۔

تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے کہ ہم نے کس طرح عالمی سطح پر آگے بڑھنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ بھارت سمیت خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں۔

اُن کے بقول پاکستان میں بعض لوگ یہ سوال بھی اُٹھاتے ہیں کہ پاکستان نے ایک عرصے تک اپنے مفادات افغانستان کے ساتھ جوڑے رکھے، لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ مشرقی بارڈر کے مقابلے میں پاکستان کا مغربی بارڈر زیادہ غیر محفوظ ہے۔

سابق سفارت کار اور تجزیہ کار عاقل ندیم کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بہت پہلے بہتر ہو جانے چاہیے تھے، لیکن پاکستان میں کافی عرصے تک یہ سوچ رہی کہ بنگلہ دیش میں کس سیاسی جماعت کے ساتھ چلنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان کے سابق بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم خالدہ ضیا کے ساتھ تعلقات ٹھیک رہے لیکن موجودہ وزیرِ اعظم حسینہ واجد کی جماعت کے ساتھ پاکستان نے دوری رکھی جس کی وجہ سے اب پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ہما بقائی نے کہا کہ ماضی میں جنرل باجوہ نےاس حوالے سے کچھ اقدامات لینے کی کوشش کی تھی لیکن اس کا سیاسی ردِعمل سامنے آنے کے بعد وہ بھی پیچھے ہٹ گئے تھے، پاکستان میں موجود سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بھی اس بارے میں بھی کوئی اچھے اور مثبت بیانات سامنے نہیں آسکے۔

ہما بقائی کے بقول پاکستان اور بنگلہ دیش اس وقت ٹیکسٹائل سمیت کئی چیزوں کی برآمدات میں مقابلہ کررہے ہیں لیکن اس مقابلے کو تعاون میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

اُن کے بقول دونوں ملکوں میں 1971 کے واقعات کی وجہ سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، لیکن دونوں ملکوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مثبت سوچ رکھتے ہیں اور تعلقات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا دونوں ملکوں کے درمیان مستقبل قریب میں کوئی بریک تھرو ممکن ہے،؟ سفارت کار عاقل ندیم نے کہا کہ موجودہ حالات میں معیشت کی جنگ ہے اور اس وقت بنگلہ دیش ایک انتہائی تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوری طور پر کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں ہے، لیکن سفارتی روابط آگے بڑھا کر اعتماد کی فضا کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG