ہندوکش کی اونچے پہاڑوں میں گھرا افغانستان، جو شمال میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے سے جا ملتا ہے، دشوار گزار علاقے اور نیم ہموار زمین پر مشتمل ہے جہاں مختلف قومیں اور قبائل آباد ہیں۔
دولت کے حصول اور علاقائی تسلط کی غرض سے مختلف ادوار میں اس سرزمین پر مختلف گروہوں اور فوجوں نے حملے کئے۔ جس کے نتیجے میں آج کے افغان معاشرے میں کسی نہ کسی انداز میں اکثر ایشیائی اقوام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
افغانستان کی بڑی آبادی پشتونوں پر مشتمل ہے، جو مشرقی جنوبی علاقوں میں آباد ہیں۔ سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق افغانستان کی آبادی جولائی 2011ء کے اعدا دو شمار کے مطابق دو کروڑ 89 لاکھ 35 ہزار سے کچھ زیادہ ہے ۔ جس میں 42 فیصد پشتون ہیں۔ جب کہ دوسری قوموں میں ایرانی نسل سے تعلق رکھنے والے تاجک 27 فیصد، منگول نسل کے ہزارہ 9فیصد ، ازبک جو نسل کے اعتبار سے ترک ہیں 9 فیصد جبکہ آرمک چارفی صد، ترکمان تین فی صد ، بلوچ دو فی صد اور باقی ماندہ چار فی صد دیگرمختلف اقوام پر مشتمل ہے۔
1498 ءمیں مشہور سیاح واسکوڈے گاما نے ہندوستان کا راستہ دریافت کیا۔ اس سے قبل مشرق اور مغرب کے درمیان افغانستان تجارت کا واحد زمینی راستہ تھا۔
سکندر اعظم ، آریہ، کوشنز، ہونز کے ترک اور منگول بھی مختلف ادوار میں اس خطے پر حکمران رہے۔ 1747ء میں مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد افغانستان کوآزادی ملی۔
1933ءمیں ظاہر شاہ نے افغانستان کی بادشاہت سنبھالی اور اگلے 40 سال تک تخت پر موجود رہے ۔ 1953 ءمیں جنرل محمد داؤدملک کے وزیر اعظم بنے مگر انہیں 1963ء میں اپنےعہدے سے مستعفی ہونا پڑا ۔1973 ءمیں جب ظاہر شاہ علاج کے لئے بیرون ملک میں تھے، جنرل داود نے بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک کوجمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔
1978ءمیں دائیں بازو کی جماعت، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نےجنرل داود کا تختہ الٹ کر انہیں قتل کردیاگیا ۔
1980ء میں ببرک کارمل کی قیادت میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے پرچم گروپ کی روسی فوج کی مدد کے ساتھ حکومت قائم ہوئی ،مگر ساتھ ہی ساتھ مختلف مجاہدین گروہوں کی حکومت ٕمخالف مزاحمت شروع ہوگئی، جنہیں امریکہ، پاکستان، چین، ایران اور سعودی عرب کی اخلاقی ، مالی اور ہتھیاروں کی مدد حاصل تھی۔ اس جنگ نے آدھی افغان آبادی کو ملک چھوڑنے ،اور بیشترکو پاکستان اور ایران میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا ۔
1985ءمیں روس کے صدر گورباچوف نے افغانستان سے اپنی فوج نکالنے کا اعلان کیا۔ 1989ء میں روسی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان کے اقتدار کے لئے افغان مجاہدین کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوگئی ۔ 1993 میں تاجک اشتراک سے مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان حکومت سازی کا معاہدہ ہوا اور برہان الدین ربانی کو صدربنایا گیا۔
1994ءمیں طالبان ابھرے ، جن کی اکثریت پشتونوں پر مبنی تھی ۔انہوں نے اپنی طرز کا اسلامی نظام نافذ کرتے ہوئے ، خواتین کے کام کرنے پر پابندی لگادی اور سخت سزائیں متعاراف کروا ئیں ۔
2001ءمیں اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان کواسامہ بن لادن کی حوالگی پر مجبور کرنے کے لیے پابندیاں عائد کردی گئیں ۔ اسی سال مارچ میں طالبان نے بین الاقوامی کوششوں کے باوجود بدھاکے مجسمے تباہ کردیئے ۔گیارہ ستمبر 2011ء کو امریکہ پر دہشت گردحملوں کا ذمہ دار اسامہ بن لادن ٹہرائے جانے اور طالبان حکومت کی جانب سے اسے امریکہ حوالے کرنے سے انکار کے بعد امریکہ نے سات اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر حملہ کر دیا اور طالبان کی شکست کے بعد وہاں حامد کرزئی کی قیادت میں ایک جمہوری حکومت قائم کردی۔لیکن اس کے باوجود افغانستان کی صورت حال مستحکم نہ ہوسکی اور طالبان نے اپنی مزاحمت جاری رکھی۔
دسمبر 2009ء میں امریکی ملٹری اکیڈمی ویسٹ پوائنٹ میں کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئےصدر اوباما نےا افغانستان سے 2001ء سے امریکی افواج کے مرحلہ وار انخلاء کا اعلان کیا۔
اس دوران افغان فوج اور پولیس کی تربیت اور انہیں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سونپنے کا سلسلہ جاری ہے۔