پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے سرکاری و نجی اسکولوں میں قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کا اعلان کیا ہے اور محکمہ تعلیم کے مطابق آئندہ تعلیمی سال کے آغاز پر اس کا نفاذ کر دیا جائے گا۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق اس منصوبے کے تحت پہلی سے پانچویں جماعت تک قرآن کی ناظرہ تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے جب کہ چھٹی سے دسویں جماعت تک تمام مسلمان طلبا کو قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھایا جائے گا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل وفاقی حکومت کی طرف سے بھی یہ کہا جا چکا ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم کے تحت ملک بھر میں چلنے والے اسکولوں میں قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے گا۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں پہلے ہی بچوں کو اسلامی تعلیمات کے بارے میں ’’اسلامیات‘‘ کا مضمون پڑھا جاتا ہے اور اُن کے بقول قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دینے سے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے طالب علم بھی یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اُن کی مقدس کتابوں کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
ماہر تعلیم خادم حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تعلیمی اداروں کی بجائے اگر بچوں کو گھروں میں مذہب اور عقائد کی تربیت دی جائے تو وہ زیادہ موزوں ہو گا۔
"دو باتیں دیکھنے کے لیے اہم ہیں کہ بچے ان کا مذہبی عقیدہ یا مذہبی کتابیں وہ عموماً اپنے گھر میں، مساجد یا مدرسے میں پڑھتے ہیں یہ والدین کا فرض بنتا ہے ان کی عقیدے کے حوالے سے تربیت کی جائے۔"
اُنھوں نے کہا کہ اس طرح کی اقدامات سے پاکستان میں آباد اقلتیوں کے لیے جگہ مزید تنگ ہو گی۔
’’اثرات یہ ہوں گے کہ (یہ) واضح طور پر نظر آتا ہے کہ جو انتہا پسند فکر ہے اس کو پذیرائی ملے گی اور جو اقلیتیں ہیں ان کے لیے جگہ مزید تنگ ہو جائے گی۔۔۔ آئین کے آرٹیکل 2 کو دیکھا جائے تو پھر شاید اگر مقدس کتاب کو لازمی مضامین کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے تو کسی اور (دیگر) مذاہب سے تعلق رکھنے والا بھی یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے (کہ) اس کی کتاب کو بھی (نصاب میں ) شامل کیا جائے تو یہ دیکھتے ہوئے پھر بائیبل اور گیتا کو بھی کورس کا حصہ ہونا چاہیئے جو کہ نہیں ہو رہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اقلیتوں کے لیے جگہ مزید کم ہو جائے۔‘‘
پاکستان میں قرآن یا دینی تعلیم کے لیے عموماً دینی مدارس ہی فرائض انجام دیتے آ رہے ہیں لیکن ان مدارس پر اکثر انتہا پسندی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
تاہم دو سال قبل ملک سے دہشت گردی و انتہا کے خاتمے کے لیے وضع کیے گئے قومی لائحہ عمل کے تحت مدارس کے کوائف جمع کرنے کا عمل شروع کیا گیا تھا اور حکام کے مطابق ملک کے نوے فیصد سے زائد مدرسوں کا انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایسے مدارس جن کے خلاف دہشت گردی میں معاونت یا انتہا پسندی میں ملوث ہونے کا شبہ ہو ان کی تحقیقات کر کے کارروائی کی جاتی ہے۔