امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس کے شمال مشرقی پہاڑوں میں دو ہفتوں سے لگی جنگلات کی آگ میں تیز ہواؤں کے سبب ہونے والے اضافے کے باعث حکام نے قریبی علاقے خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔
رواں ماہ چھ ستمبر کو لگنے والی آگ میں اب تک دو گنا اضافہ ہوچکا ہے جب کہ آگ پر صرف پندرہ فی صد تک قابو پایا جا سکا ہے۔
دریں اثنا جنوبی کیلی فورنیا میں حکام آگ بجھانے والے عملے کے ایک رُکن کی ہلاکت کی بھی تحیققات کر رہے ہیں۔ مذکورہ علاقے میں آگ بچے کی جنس ظاہر کرنے والے الیکٹرانک آلے کی وجہ سے بھڑکنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
امریکی ادارے 'یو ایس فوریسٹ سروس' کے جاری کردہ بیان میں کہنا ہے کہ فائر فائٹر کی ہلاکت جمعرات کو لاس اینجلس کے مشرق میں 120 کلومیٹر دور لگی آگ پر قابو پانے کی کوششوں کے دوران ہوئی۔
شمالی لاس اینجلس کاؤنٹی میں آگ بجھانے والا عملہ تیز ہواؤں کے باعث قریبی آبادی کو لپیٹ میں لیتی آگ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ تاہم سان گیبرئیل کی پہاڑیوں کے آس پاس مقیم آبادی کو ہفتے کو فوری انخلا کا حکم دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ تیز ہواؤں سے آگ تیزی سے پھیل رہی ہے اور رائٹ وڈ میں مقیم چار ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
لاس اینجلس کے 80 کلومیٹر کے علاقے میں لگنے والی آگ سے ہونے والے نقصانات کا تاحال تخمینہ نہیں لگایا جا سکا۔ لیکن لاس اینجلس کاؤنٹی پارک حکام کا کہنا ہے کہ آگ کے شعلوں سے سیاحتی مقام ڈیولز پنچ باؤل بھی متاثر ہوا ہے، جہاں ہر سال ایک لاکھ 30 ہزار سیاح آتے ہیں۔
لاس اینجلس کے جنوبی علاقوں میں فائر فائٹرز فلکیات کے تاریخی ادارے ‘ماؤنٹ ولسن’ اور دیگر مواصلاتی تنصیبات کو بچانے کی کوششوں میں ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ آگ پر قابو پانا اس لیے مشکل ہے کہ جن علاقوں میں یہ آگ لگی ہے۔ وہاں دہائیوں میں کبھی آگ نہیں لگی اور آگ پر قابو پانے والے اداروں کے پاس وسائل کی کمی ہے۔
حکام کے مطابق 1660 فائر فائٹرز آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں ہیں۔