امریکہ میں شہد کی مکھیوں کے مسئلے میں قدرے بہتری کے آثار پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی تعداد کم ہونے کی رفتار پچھلے سال کے مقابلے میں قدرے سست پڑ گئی ہے۔
سن 2011ا ور 2012 کے دوران کمی کی یہ شرح انتہائی بلند تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تجارتی پیمانے اور چھوٹی سطح پر شہد کی مکھیاں پالنے والوں کو اپریل 2016 اور اپریل 2017 کے درمیان شہد کی مکھیوں کی تعداد میں 33 فی صد کمی کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ میں علم حشرات الارض کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر اور شہد کی مکھیوں کے پراجیکٹ کے ڈائریکٹر ڈینس وین اینگلس ڈورپ نے کہا ہے کہ یہ چیز حوصلہ افزا ہے کہ نقصان کی سطح میں کمی کے آثار دکھا ئی دے رہے ہیں اور میں اسے ایک اچھی خبر قرار دوں گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سال شہد کی مکھیوں کی آبادیوں میں 30 فی صد سے زیادہ کمی ہوئی ۔ میرا خیال ہے کہ زراعت کے کسی اور شعبے کے لیے اتنے بھاری نقصان کے بعد کاروبار میں رہنا ممکن نہ ہوتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی تعدا د میں کمی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے خاص طور پر طفیلی کیڑا ’وروا‘ اور بیماریوں کے حملے قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح تجارتي پیمانے پر شہد کی مکھیاں پالنے والوں کو کیڑے مار دواؤں کے استعمال کے باعث بھی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
شہد کی مکھیوں سے متعلق سالانہ سروے گذشتہ 11 برسوں سے کیا جا رہا ہے۔ اس سروے کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی آبادیاں کیوں گھٹتی جا رہی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے تو اس سے انسانوں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ شہد کی مکھیاں امریکہ کی زرعی آمدنی میں سالانہ 15 ارب ڈالر کا اضافہ کرتی ہیں۔ بادام اس کی ایک واضح مثال ہیں کیونکہ اس فصل کا کلی طور پر دارومدار شہد کی مکھیوں پر ہوتا ہے۔
شہد کی مکھیوں کے سالانہ سروے کے اعدادوشمار اکھٹے کرنے والے یونیورسٹی آف میری لینڈ کے شعبہ علم حشرات الأرض کے ناتھالی سٹین ہور کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی موجودگی ا س بات کی علامت ہے کہ ہماری زمین کے منظر نامے کی عمومی صحت بہتر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہد کی مکھیاں جس ماحول میں رہتی ہیں، وہ ان پر پوری قوت سے اثر انداز ہوتا ہے، مثال کے طور پر پھول، غلاظت اور گندگی اور کیڑے مکوڑے وغیرہ۔۔ شہد کی مکھیوں کا صحت مند ہونا انسانی آبادیوں کی ضرورت ہے۔