ہانگ کانگ میں جمعہ کو علی الصبح پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دو ہفتوں سے زائد عرصے احتجاج کرنے والوں کے خیمے اور ان کی طرف سے کھڑی رکاوٹیں ہٹا دیں۔
اس کارروائی میں اندازاً 100 پولیس اہلکاروں نے حصہ لیا جنہوں نے شہر کے مرکزی کاروباری علاقے سے تمام رکاوٹیں اور خیمے اکھاڑ پھینکیں۔ پولیس نے مونگ کوک نامی علاقے میں بھی کارروائی کی جہاں موجود کم ازکم 30 احتجاجیوں نے بغیر کسی مزاحمت کے یہ جگہ خالی کر دی۔
ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز مظاہروں کے ایک منتظم گروپ نے کہا ہے کہ پولیس کی طرف سے مظاہرین کے خلاف کی گئی حالیہ کارروائیوں سے معاملے کے حل کے لیے مذاکرات کے حکومتی عزم پر کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔
گزشتہ ماہ کےاواخر سے ہانگ کانگ میں مظاہرین کی طرف سے مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کر کے دھرنے دیے گئے تھے۔
مظاہرین ہانگ کانگ میں 2017ء کے انتخابات کے لیے چین کی طرف سے امیدواروں کی چھان بین کے فیصلے کو واپس لینے اور چیف ایگزیکٹو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔
قبل ازیں چیف ایگزیکٹو لیونگ چن ینگ نے مظاہرین سے مذاکرات بحال کرنے کا عندیہ دیا جو کہ آئندہ ہفتے شروع ہو سکتے ہیں۔
جمعرات کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لیونگ کا کہنا تھا کہ وہ بیجنگ کے فیصلے سے متعلق مظاہرین کو کوئی رعایت نہیں دے سکتے۔
"سیاست ممکنات کا فن ہے۔ ہمیں ممکنات اور نا ممکنات میں لکیر کھینچنا ہوگی۔ مرکزی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہمیں مظاہرین کے ساتھ مل کر راہ تلاش کرنی ہے کہ پچاس لاکھ ووٹرز 2017ء میں چیف ایگزیکٹو کے انتخاب میں ہانگ کانگ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈال سکیں۔"
دریں اثناء برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ہانگ کانگ کے لوگوں کے حقوق کی حمایت کی جانی چاہیے۔ انھوں نے اس سابق برطانوی نو آبادی میں جمہوریت میں لوگوں کی اصل امنگوں کی ترجمانی پر زور دیا۔
واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ امریکہ، چین اور ہانگ کانگ میں بدستور متعلقہ عہدیداروں سے رابطے میں ہے۔