ایک ایسے وقت میں جب کہ ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہرے دنیا بھر کی توجہ حاصل کر رہے ہیں، غالباً جمہوریت کی حمایت میں جاری اس تحریک کو سب سے زیادہ پذیرائی تائیوان میں مل رہی ہے۔ خود مختار جزیرہ تائیوان، جس پر چین اپنی ملکیت کا دعویدار ہے، ہانگ کانگ کی تحریک اور اس کے پناہ گزینوں کا سب سے بڑا سہارا بن گیا ہے۔
جو کچھ آج ہانگ کانگ میں ہو رہا ہے، وہ کل کلاں تائیوان میں بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وہ خدشات ہیں جو تائیوان میں ہانگ کانگ کے مظاہروں کی حمایت کرنے والوں کے دلوں میں پائے جاتے ہیں۔
تائی پے کے ایک رہائشی لن سن جن کہتے ہیں۔’یہ مظاہرے اس چیز کی یاددہانی ہے کہ ایک ملک دو نظام کی بات محض ایک جھوٹ ہے۔‘
ایک ملک دو نظام چین کی حکمرانی کا ایک ماڈل ہے جو اس نے ہانگ کانگ پر حکومت کرنے کے لیے تخلیق کیا ہے۔ اور وہ اپنے اسی ماڈل کا اطلاق مستقبل میں جمہوریہ تائیوان پر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ادھر تائیوان میں شاہد ہی کوئی ایسا ہو جو اس ماڈل کے ساتھ چلنے پر تیار ہو۔
تائیوان میں رہنے والی ایک خاتون کیری چانگ کہتی ہیں۔’یہ سسٹم کام نہیں کر سکتا۔ ہم اس کے خلاف ہیں۔ ہم قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں، لیکن وہ ایک مطلق النعان حکومت ہے۔‘
چین اس کے باوجود تائیوان پر اپنا دعویٰ کرتا ہے کہ جزیرے پر 70 سال سے زیادہ عرصے سے تائیوانی خود حکمران ہیں۔ اگرچہ وہاں لوگوں کی اکثریت بیجنگ کے ساتھ اقتصادی رابطوں کی حمایت کرتی ہے لیکن رائے عامہ کے جائزوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تائیوانیوں کی اکثریت ہانگ کانگ جیسے سیٹ اپ کی مخالف ہے۔
تائیوان کے وزیر خارجہ جوزف وو کہتے ہیں۔’ ہم اپنا تحفظ چاہتے ہیں اور ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ چین جس طرح کا برتاؤ ہانگ کانگ کے ساتھ کر رہا ہے، ویسا تائیوان کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے‘۔
تائیوان کی حکومت ہانگ کانگ کی کھل کر حمایت کر رہی ہے۔
وزیر خارجہ جوزف وو کا کہنا ہے کہ ہم صورت حال کا بڑی احتیاط سے جائزہ لے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہاں تائیوان کے لوگ بھی بڑی توجہ سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ چین کی حکومت ہانگ کانگ کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس پر بڑی تشویش ہے کہ چین کی حکومت انہیں دبانے کی کوشش کر رہی ہے اور مظاہرین کو کہیں زیادہ تشدد سے دبا رہی ہے۔
جیسے جیسے ہانگ کانگ میں تشدد بڑھ رہا ہے، تائیوان میں ان کے لیے حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ حمایت علامتی ہونے سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔
تائیوان کے صدر چین کی خفگی مول لیتے ہوئے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ہانگ کانگ سے کچھ لوگوں کو قبول کرنے کی پیش کش کر چکے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ہانگ کانگ سے کتنے لوگوں نے اس پیش کش کا فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ تائیوان میں پناہ حاصل کرنے کا کوئی باضابطہ طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ہانگ کانگ اور تائیوان بیجنگ سے اختلاف کرتے ہوئے کسی انداز سے ایک دوسرے کی اتنی مدد کر رہے ہیں جتنا کہ وہ کر سکتے ہیں۔