خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کے دو واقعات میں پانچ افراد ہلاک جب کہ دو زخمی ہو گئے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ضلع بنوں کے نواحی گاؤں میں زینب نامی خاتون نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی کی اور گھر سے فرار ہو گئی۔ معاملہ عدالت تک پہنچنے پر عدالت نے زینب کے شوہر کو جیل بھجوا دیا تاہم زینب کو اس کے سسرالیوں کے سپرد کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق جمعرات کو زینب کے بھائی اور اس کے ساتھیوں نے اس کے گھر پر فائرنگ کر کے زینب کو قتل کر دیا جب کہ زینب کے سسرالیوں کی جوابی فائرنگ میں زینب کا بھائی اور اس کے دو ساتھی ہلاک ہو گئے۔ واقعے میں دو افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
پولیس کے مطابق فریقین میں سے کسی نے بھی پولیس کو رپورٹ نہیں کی تاہم پولیس نے ازخود مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
ایک اور واقعہ میں ضلع مردان کے قریب دیر کے علاقے میں مبینہ طور پر گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کرنے والی خاتون کو اس کے بھائیوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔
چند روز قبل ضلع کوہستان کے ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار افضل کوہستانی کے بھائی نے مبینہ طور پر اپنے بھائی کی بیوہ کے ساتھ خفیہ شادی کرنے کی پاداش میں قریبی رشتہ دار کو قتل کر دیا تھا۔
پولیس کے مطابق افضل کوہستانی کی بیوہ تاحال لاپتا ہے تاہم ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ افضل کوہستانی کو چند ماہ قبل نامعلوم افراد نے ایبٹ آباد میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کوہستان ویڈیو اسکینڈل میں ابھی تک افضل کوہستانی اور چار خواتین سمیت 7 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ کوہستان کے علاقے میں شادی کی ایک تقریب کے دوران مرد اور خواتین کے رقص کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس کے بعد یہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ ان خواتین کو قتل کر دیا گیا ہے۔
اس واقعہ کا مدعی افضل کوہستانی تھا جسے چند ماہ قبل قتل کر دیا گیا تھا۔
عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم عورت فاؤنڈیشن کی علاقائی ڈائریکٹر شبینہ ایاز نے صورت حال کو انتہائی کشیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی ادارے خواتین کے تحفظ میں ناکام ہو چکے ہیں۔ جس کی بڑٰی وجہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں گھریلو خواتین پر تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔