اسلام آباد —
پاکستان کے صنعتی اور کاروباری مرکز کراچی میں طویل عرصہ سے جاری خون ریز بد امنی کے خاتمے سے متعلق وفاقی حکومت کی کوششوں بشمول کابینہ کے خصوصی اجلاس کے انعقاد کے بعد مبصرین اور تاجروں نے لگ بھگ دو کروڑ آبادی والے اس شہر کی صورتِ حال میں بہتری آنے کی توقع کا اظہار کیا ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے بدھ کو کابینہ کے اجلاس کی سربراہی سے قبل منگل کو کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں کے وفد سے بھی ملاقات کی تھی۔
کراچی کے ایوانِ صنعت و تجارت کے صدر ہارون اگر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نواز شریف کی یہ یقین دہانی کہ قیام امن کی کوششیں سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کی جائیں گی، انتہائی خوش آئند ہے۔
’’کراچی شہہ رگ ہے پاکستان کی، کراچی کو کوئی نقصان پہنچائے گا تو پورا پاکستان متاثر ہو گا اور قومی معیشت کی بحالی کے لیے کراچی میں امن کی بحالی ضروری ہے ... تو اُنھوں نے جو باتیں کی ہیں اُن سے لگتا ہے کہ انشا اللہ کچھ نا کچھ مثبت نتیجہ نکلے گا۔‘‘
مبصرین کا ماننا ہے کہ کراچی کے امن کے لیے محکمہ پولیس میں سیاسی اثر و رسوخ اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے عسکری دھڑوں اور جرائم پیشہ عناصر کی مبینہ سر پرستی کا خاتمہ نا گزیر ہے۔
وزیرِ اعظم کراچی میں بلا تفریق کارروائی کی یقین دہانی کرا چکے ہیں، اور سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال کی سنگینی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی موجود نہیں۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی پر اس کی زد میں آنے والوں کی جانب سے ردِ عمل یقینی ہے، لیکن قیام امن کا مقصد حاصل کرنے کے لیے حکومت کو ثابت قدمی دیکھانی ہوگی۔
’’زرہ سی کارروائی ہوتی ہے تو پارلیمان اور ذرائع ابلاغ میں شور مچ جاتا ہے ... تو کارروائی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
تسنیم نورانی کا کہنا تھا کہ اگر ان معاملات کو سلجھایا نہیں جاتا اور حکومت ’’ٹھوس فیصلہ‘‘ نہیں کرتی، صورتِ حال میں بہتری ’’عارضی‘‘ ہو گی۔
ہارون اگر نے بھی اس ضمن میں متنبہ کیا کہ قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ناکامی جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افضائی کے مترادف ہوگی۔
پاکستان تمام سیاسی جماعتوں نے کراچی میں امن عامہ کی صورتِ حال میں بہتری کے لیے ہر مکمن کردار ادا کرنے کا یقین دلایا ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے بدھ کو کابینہ کے اجلاس کی سربراہی سے قبل منگل کو کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں کے وفد سے بھی ملاقات کی تھی۔
کراچی کے ایوانِ صنعت و تجارت کے صدر ہارون اگر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نواز شریف کی یہ یقین دہانی کہ قیام امن کی کوششیں سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کی جائیں گی، انتہائی خوش آئند ہے۔
’’کراچی شہہ رگ ہے پاکستان کی، کراچی کو کوئی نقصان پہنچائے گا تو پورا پاکستان متاثر ہو گا اور قومی معیشت کی بحالی کے لیے کراچی میں امن کی بحالی ضروری ہے ... تو اُنھوں نے جو باتیں کی ہیں اُن سے لگتا ہے کہ انشا اللہ کچھ نا کچھ مثبت نتیجہ نکلے گا۔‘‘
مبصرین کا ماننا ہے کہ کراچی کے امن کے لیے محکمہ پولیس میں سیاسی اثر و رسوخ اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے عسکری دھڑوں اور جرائم پیشہ عناصر کی مبینہ سر پرستی کا خاتمہ نا گزیر ہے۔
وزیرِ اعظم کراچی میں بلا تفریق کارروائی کی یقین دہانی کرا چکے ہیں، اور سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال کی سنگینی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی موجود نہیں۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی پر اس کی زد میں آنے والوں کی جانب سے ردِ عمل یقینی ہے، لیکن قیام امن کا مقصد حاصل کرنے کے لیے حکومت کو ثابت قدمی دیکھانی ہوگی۔
’’زرہ سی کارروائی ہوتی ہے تو پارلیمان اور ذرائع ابلاغ میں شور مچ جاتا ہے ... تو کارروائی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
تسنیم نورانی کا کہنا تھا کہ اگر ان معاملات کو سلجھایا نہیں جاتا اور حکومت ’’ٹھوس فیصلہ‘‘ نہیں کرتی، صورتِ حال میں بہتری ’’عارضی‘‘ ہو گی۔
ہارون اگر نے بھی اس ضمن میں متنبہ کیا کہ قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ناکامی جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افضائی کے مترادف ہوگی۔
پاکستان تمام سیاسی جماعتوں نے کراچی میں امن عامہ کی صورتِ حال میں بہتری کے لیے ہر مکمن کردار ادا کرنے کا یقین دلایا ہے۔