عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ شام کے ایک ساحلی شہر پر پیر کو ہونے والے خود کش حملے میں 43 افراد مارے گئے ہیں۔
ایک سرگرم گروپ کا کہنا ہے کہ پیرکو ہونے والے مختلف حملوں میں مرنے والوں کی تعداد 154 ہو گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پیر کو جبلہ شہر میں جبلہ نیشنل اسپتال پر ہونے والے بم حملے میں مرنے والوں کی اکثریت مریضوں اور ان کے اہل خانہ کی تھی۔ تاہم ہلاک ہونے والوں میں تین ڈاکٹر اور نرسیں بھی شامل تھیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اسپتال میں تین دیگر دھماکوں میں متاثر ہونے والے افراد کو طبی امداد کے لیے لایا گیا تھا مگر دھماکے میں شدید نقصان پہنچنے کے بعد اسپتال کو بند کر دیا گیا ہے۔
طرطوس اور جبلہ میں ہونے والے بم حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ دونوں شہر سرکاری قبضے میں ہیں اور اب تک شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی سے محفوظ رہے تھے۔
شامی عہدیداروں کے مطابق پیر کو ہونے والے حملوں میں کم از کم 80 افراد مارے گئے ہوئے جبکہ برطانیہ میں قائم تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے منگل کو کہا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 154 تھی۔
یہ تنطیم مقامی ذرائع کے ذریعے شام میں جنگ پر نظر رکھتی ہے۔
طرطوس اور جبلہ دونوں میں شیعہ، سنی اور مسیحی آباد ہیں اور حملوں کا نشانہ بننے والے مقامات پر ان تمام برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد نشانہ بنے، مگر داعش کی طرف سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بھیجے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ بمباری ’’نصیریہ کے گھر‘‘ پر کی گئی۔
’’نصیریہ‘‘ کا لفظ علوی فرقے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس سے صدر بشارالاسد تعلق رکھتے ہیں۔
بمباری کے جواب میں طرطوس میں واقع بے گھر افراد کے کیمپ پر جوابی حملے کیے گئے جس میں مقامی میڈیا کے مطابق کیمپ کے کچھ حصے جل کر خاکستر ہو گئے۔
شام کے شمالی صوبوں سے تعلق رکھنے والے طرطوس میں رہائش پذیر سات لاکھ بے گھر افراد کی اکثریت سنی ہے۔