سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ٹیلی ویژن اور ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ کے مطابق، پیر کے روز شام کے عام طور پر پُرامن ساحلی شہروں میں بم دھماکوں کا ایک سلسلہ جاری رہا، جن میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
یہ دھماکے جبلہ اور تارطوس کے مضبوط سرکاری ٹھکانوں میں ہوئے، جو اب تک شام میں ہونے والی تشدد کی کارروائیوں سے بچے رہے ہیں، جو پُرتشدد کارروائیاں پانچ برس کی خانہ جنگی کے دوران جاری تھیں۔
شدت پسند تنظیم ’داعش‘ نے جبلیہ اور تارطوس شہروں میں ہونے والے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
جبلہ میں چار بم حملے ہوئے، جن میں سے کم از کم ایک خودکش حملہ تھا، جس میں شہر کے اسپتال میں داخلے کا ہنگامی دروازہ شامل ہے۔ سیئرین آبزرویٹری کے مطابق، ایک بس اسٹیشن پر راکیٹ حملہ ہوا جس میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے۔
مزید تین بموں کا نشانہ تارطوس تھا، جن میں سے کم از کم ایک خودکش حملہ تھا، جو کہ جبلہ کے شمال میں تقریباً 60 کلومیٹر دور واقع ہے، جسے آبزرویٹری کے سربراہ رمی عبدالرحمٰن نے ’’غیر معمولی‘‘ حملہ قرار دیا۔
ایک بار پھر، دہشت گردوں نے ایک بس اسٹیشن کو نشانہ بنایا جہاں لوگوں کی بھیڑ تھی۔ یہ بات شام کی صنعا نیوز ایجنسی کی جاری کردہ ایک خبر میں بتائی گئی ہے۔
ٹیلی ویژن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیشن کے قریب کم از کم ایک خودکش بم حملہ آور نے اپنے آپ کو بھک سے اڑا دیا، جس کے کچھ ہی منٹوں کے بعد کار میں سوار بم حملہ آور نے حملہ کیا۔ رحمٰن کے مطابق، اس حملے میں مزید 48 افراد ہلاک ہوئے۔
داعش کے منسلک ایک خبر رساں ادارے نے حملے کا سہرا انتہا پسندوں کے سر باندھا ہے۔
’اعماق‘ نیوز ایجنسی نے ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایا ہے کہ ’’داعش کے لڑاکوں نے یہ حملے شام کے ساحلی شہروں، تارطوس اور جبلہ میں علویوں کے اجتماعات پر کیے‘‘، جس سے مراد وہ اقلیتی گروپ ہے جس سے صدر بشار الاسد کا تعلق ہے۔
روس کا، جو صدر اسد کی پشت پناہی کرتا ہے، تارطوس میں بحریہ کا ایک اڈا ہے، جب جبلہ کے شمال میں اُس کا ایک فضائی اڈا قائم ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ایک ترجمان نے اِن حملوں کے بارےمیں کہا ہے کہ ’’اس سے ایک بار پھر اس بات کا پتا چلتا ہے کہ شام کی صورتِ حال کتنی سنگین ہے‘‘، اور اس سے اس بات کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے کہ مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے مستقل اقدامات کی ضرورت ہے‘‘۔
امریکہ نے مذمت کرتے ہوئے، اِن حملوں کو ’’خوفناک‘‘ قرار دیا ہے۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان، مارک ٹونر نے کہا ہے کہ ’’داعش کو کمزور کرنے اور شکست دینے کے لیے امریکہ عالمی اتحاد کی قیادت کرتا رہے گا، تاکہ وہ اُن کے خلاف مزید مظالم نہ کرسکے جو اُس کے مسخ شدہ عالمی تناظر کو مسترد کرتے ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون نے بھی پیر کے روز اِن حملوں کی مذمت کی ہے۔