رسائی کے لنکس

بھارت میں چیف جسٹس اور ججز کی تعیناتی کیسے ہوتی ہے؟


  • پاکستان میں چیف جسٹس کی تعیناتی اور 26 ویں آئینی ترمیم پر مختلف حلقوں کی جانب سے ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
  • بھارت میں سبک دوش ہونے والا چیف جسٹس سینئر ترین جج کا نام چیف جسٹس کے لیے حکومت کو بھیجتا ہے۔
  • سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کی تعیناتی ’کالیجئیم سسٹم‘ کے تحت ہوتی ہے۔
  • ہائی کورٹس کے 'کالیجیئم' الگ اور سپریم کورٹ کا الگ ہوتا ہے۔
  • تقرری سے قبل حکومت انٹیلی جینس اور اپنی دیگر ایجنسیز کے ذریعے ان ناموں کی چھان بین کرتی ہے۔
  • مرکزی حکومت بھی سپریم کورٹ کے ججز کے لیے اپنی جانب سے کچھ نام 'کالیجئیم' کو بھیج سکتی ہے۔

پاکستان میں نئی آئینی ترمیم کے بعد ملک میں چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی تعیناتی کا اختیار پارلیمانی کمیٹی کو دے دیا گیا ہے۔ حکمراں اتحاد اسے پارلیمان کی بالادستی قرار دے رہا ہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں اسے آزاد عدلیہ پر حملہ قرار دے رہی ہیں۔

ایسے میں یہ معاملہ بھی موضوعِ بحث ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص بھارت میں چیف جسٹس اور ججز کی تعیناتی کا طریقۂ کار کیا ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ بھارت میں چیف جسٹس، اعلٰی عدلیہ کے ججز اور ماتحت عدلیہ میں ججز کیسے تعینات ہوتے ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نو نومبر کو اپنے عہدے سے سبک دوش ہو رہے ہیں۔ ان کی جگہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سنجیو کھنہ چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے۔

ملک کو برطانوی حکومت سے آزادی ملنے کے بعد 26 جنوری 1950 کو بھارت کا آئین نافذ ہوا۔ اسی دن دستور کی دفعہ 124 کے تحت ملک کی سب سے بڑی عدالت یا عدالتِ عظمیٰ جسے سپریم کورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے قائم کی گئی۔

اس وقت بھارتی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 34 ججز ہیں۔

سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر صدر اپنے دستخط اور مہر سے حکم نامے (وارنٹ) کے ذریعے سپریم کورٹ یا ریاستوں کی ہائی کورٹس کے ججز سے مشاورت سے کرتے ہیں۔ ججز 65 سال کی عمر تک خدمات انجام دے سکتے ہیں۔

کالیجئیم سسٹم

آسان زبان میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارت میں ججز کی نامزدگی ’کالیجئیم سسٹم‘ کے تحت ہوتی ہے۔ ہائی کورٹس کے 'کالیجیئم' الگ اور سپریم کورٹ کا الگ ہوتا ہے۔ ہر 'کالیجئیم' کا سربراہ چیف جسٹس ہوتا ہے اور اس میں چار سینئر ترین ججز شامل ہوتے ہیں۔

'کالیجئیم' کے ذریعے ججز کی نامزدگی کا طریقہ کار یوں ہے کہ جس ہائی کورٹ میں بھی ججز کی نامزدگی کرنی ہوتی ہے تو وہاں کا متعلقہ 'کالیجئیم' ججز کے نام سپریم کورٹ کے 'کالیجیئم' کو بھیجتا ہے۔

سپریم کورٹ کا 'کالیجئیم' ان ناموں پر غور کر کے ان کی نامزدگی کے لیے حکومت کے پاس بھیج دیتا ہے۔ حکومت ان کے بارے میں چھان بین کرتی ہے اور مطمئن ہونے کے بعد ان کو منظور کر لیتی ہے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ از خود ججز کا تقرر کرتی ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے ایسے وکلا میں سے جو کم از کم 10 برس سے وکالت کر رہے ہوں ججز نامزد کرتی ہے۔

سپریم کورٹ کے 'کالیجئیم' میں بھی چیف جسٹس کے علاوہ چار سینئر ترین جج ہوتے ہیں۔ یہ کالیجئیم خالی جگہوں کو پُر کرنے کے لیے کچھ نام منتخب کر کے وزیرِ قانون کے پاس بھیجتا ہے۔ وزیرِ قانون اس فہرست کو وزیرِ اعظم کے پاس بھیجتے ہیں اور وزیرِ اعظم صدر کے پاس بھیجتے ہیں۔

لیکن اس سے قبل حکومت انٹیلی جینس اور اپنی دیگر ایجنسیز کے ذریعے ان ناموں کی چھان بین کرتی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ ان کا پس منظر غلط تو نہیں ہے۔ مطمئن ہونے کے بعد ہی وہ ان کو منظوری دیتی ہے۔

سپریم کورٹ کا 'کالیجئیم' جن ناموں کی سفارش کرتا ہے حکومت ان کو منظور کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات حکومت کچھ ناموں پر مختلف اسباب سے اعتراض کرتی ہے اور ان کی نامزدگی روک لیتی ہے۔ لیکن اگر 'کالیجئیم' ان ناموں کو دوبارہ بھیجے تو حکومت کے لیے ان کو ماننا لازمی ہوتا ہے۔

آئین کی دفعہ 124 کے تحت سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے بھارت کا شہری ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ وہ کسی ہائی کورٹ کا کم از کم متواتر پانچ سال تک جج رہا ہو۔ یا پھر کسی ہائی کورٹ میں کم از کم متواتر 10 سال تک وکالت کرنے کا تجربہ رکھتا ہو۔

اس کے علاوہ صدر کسی ایسے شخص کو بھی سپریم کورٹ کا جج نامزد کر سکتے ہیں جو ان کی رائے میں ایک ممتاز قانون دان ہو۔

مرکزی حکومت بھی سپریم کورٹ کے ججز کے لیے اپنی جانب سے کچھ نام 'کالیجئیم' کو بھیج سکتی ہے۔

ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی نامزدگی متعلقہ ریاست کی پالیسی کے مطابق ہوتی ہے۔ تاہم سبک دوش ہونے والے جج سینئر ترین ججز کے ساتھ مشاورت کر کے چیف جسٹس کے نام کی سفارش کرتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کے پاس بھیج دیتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ ریاستی گورنر کے پاس بھیجتے ہیں جو کہ اس نام کو منظوری کے لیے مرکزی وزیرِ قانون کے پاس بھیج دیتے ہیں۔

چیف جسٹس کی نامزدگی کا اختیار اور تنازع

بھارتی سپریم کورٹ کے سبک دوش ہونے والے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کا نام حکومت کو بھیجتے ہیں۔ حکومت اس نام کو منظوری کے لیے صدر کو بھیجتی ہے اور یوں نیا چیف جسٹس حلف اُٹھا لیتا ہے۔

سال 1950 سے 1973 تک چیف جسٹس آف انڈیا کی نامزدگی کے سلسلے میں چیف جسٹس آف انڈیا اور حکومت کے درمیان اتفاقِ رائے کی روایت رہی ہے۔

لیکن 1973 میں اس وقت کی مرکزی حکومت نے اس روایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تین سینئر ترین ججز کو نظرانداز کر کے اے این رائے کو چیف جسٹس آف انڈیا بنا دیا تھا۔

اسی طرح 1977 میں اس وقت کی حکومت نے سینئر ترین جج جسٹس ہنس راج کھنہ کے بجائے مرزا حمید اللہ بیگ کو چیف جسٹس آف انڈیا نامزد کر دیا۔ اس پر عدلیہ اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ ہوا تھا۔

'کالیجئیم' سسٹم پر اعتراضات

'کالیجئیم' سسٹم پر حکومت اور سول سوسائٹی کی جانب سے اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ اس نظام میں شفافیت نہیں ہے۔ اس معاملے پر موجودہ مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان کئی بار اختلافات سامنے آئے ہیں۔

بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ججز کے تقرر میں اپنا مکمل اختیار چاہتی ہے تاکہ وہ اپنی پسند کے ججز نامزد کر سکے۔ جب کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ اس معاملے میں شفافیت لانا چاہتی ہے۔

اس تعلق سے سابقہ یو پی اے حکومت نے 2013 میں ’نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن‘ (این جے اے سی) کی تجویز پیش کی تھی۔ بعد کی مودی حکومت نے 2014 میں اس تجویز کو دوبارہ پیش کیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے 2015 میں اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

عدالت کا استدلال تھا کہ ججز کی نامزدگی میں حکومت کی مداخلت سے آئین کے بنیادی ڈھانچے اور عدلیہ کی آزادی کی خلاف ورزی ہو گی۔ لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ 'این جے اے سی' سے کالیجئیم نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

ماتحت عدلیہ میں ججز کی تعیناتی

جہاں تک ذیلی عدالتوں میں ججز کے تقرر کا معاملہ ہے تو ان میں قانون کا امتحان پاس کرنے والے امیدوار جج نامزد کیے جاتے ہیں۔

یہ امتحان دو سطحوں پر ہوتے ہیں۔ یعنی ماتحت عدلیہ اور اعلٰی عدلیہ کے امتحان۔ ماتحت عدلیہ سے جو لوگ ججز نامزد ہوتے ہیں وہ ضلعی جج کے عہدے سے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ جب کہ اعلٰی عدلیہ سے جج نامزد ہونے والوں میں سے بہت سے سنیارٹی لسٹ کی بنیاد پر ترقی کر کے ہائی کورٹس تک پہنچ جاتے ہیں۔

بعض قانونی ماہرین ججز کے تقرر میں تاخیر پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں۔ سول سوسائٹی کی جانب سے اکثر یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ عدالتوں میں خالی پڑی ججز کی جگہیں پر کی جائیں تاکہ زیر التوا مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جا سکے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان ایڈووکیٹ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں تو کوئی جگہ خالی ہوتی ہے تو پر کر لی جاتی ہے۔ لیکن مختلف ہائی کورٹس میں بہت سی جگہیں خالی ہیں جنھیں پر کیے جانے کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق اس وقت صرف الہ آباد ہائی کورٹ میں کم از کم 40 فی صد جگہیں خالی ہیں جنھیں جلد از جلد پر کیا جانا چاہیے۔

یاد رہے کہ 2023 کے آخر تک بھارت کی عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ سے زائد تھی۔

زیڈ کے فیضان کے مطابق ججز کی کمی کی وجہ سے بہت سے معاملات میں برسوں تک ٹرائل شروع نہیں ہوتا اور لوگوں کی زندگی کا بڑا حصہ جیلوں میں گزر جاتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG