رسائی کے لنکس

نواز شریف کا دورۂ بلوچستان؛ صوبے کی سیاست میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے؟


سابق وزیرِ اعظم نواز شریف ںے دو روزہ دورۂ بلوچستان مکمل کر لیا ہے جہاں اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جانے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنماؤں کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے علاوہ دیگر اہم سیاسی رہنما بھی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے بیان کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ہمراہ کئی سابق وفاقی اور صوبائی وزرا سمیت متعدد رہنما مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں بلوچستان عوامی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے رہنما بھی شامل ہیں۔

بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے بیانیے میں بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے لیے نرم گوشہ نظر آتا ہے۔ ایسے میں وہ پرو اسٹیبلشمنٹ جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کا آج سے تین سال پہلے جو بیانیہ تھا اب اس میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہے۔

اُن کے بقول موجودہ سیاسی سرگرمیوں اور اتحاد کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔

اُن کے بقول دوسرے نمبر پر جمعیت علماء اسلام (ف) اور بلوچستان عوامی پارٹی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری ہے۔

شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ مستقبل میں بلوچستان میں ان تین سیاسی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت تشکیل پانے کا امکان ہے۔

قوم پرست جماعتوں کو نئے اتحاد سے سیاسی نقصان پہنچے گا؟

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق اس نئے اتحاد سے بلوچستان میں بعض نشستوں پر قوم پرست جماعتوں کو ضرور نقصان پہنچ سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دشت کے علاقے میں اگر کچھ الیکٹیبلز ہیں اور وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوتے ہیں تو اس سے نیشنل پارٹی کو عام انتخابات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اُن کے بقول لورالائی، موسیٰ خیل اور ہرنائی کی نشستوں پر بھی قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کو نئے سیاسی اتحاد سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کون کس جماعت سے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوا؟

واضح رہے کہ میاں محمد نواز شریف کے دورۂ کوئٹہ کے موقع پر 29 کے قریب اہم سیاسی شخصیات نے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔

ان شخصیات میں زیادہ تر کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے جب کہ اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سابق اراکین اسمبلی بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے ہیں۔


کیا سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال وزارت اعلیٰ کے لیے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے ہیں؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اگر پاکستان مسلم لیگ کو نمائندگی دینی ہے تو اس میں ان الیکٹیبلز کو شامل کیا جائے گا جو ہر پانچ سال بعد سیاسی وابستگیاں بدلتے ہیں۔

سینئر صحافی رشید بلوچ سمجھتے ہیں کہ 'باپ' پارٹی کے الیکٹیبلز کے بدلے مسلم لیگ (ن) کو انہیں اقتدار میں بڑا حصہ دینا ہو گا۔

رشید بلوچ کے مطابق بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور 'باپ' کے سابق صدر جام کمال خان کے مسلم لیگ میں شمولیت کے فیصلہ کی ایک وجہ یا خواہش یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مستقبل میں الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت انہیں خود ہی دوبارہ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کے منصب کے لیے نامزد کرے۔

انہوں نے کہا کہ الیکٹیبلز کی شمولیت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کی سب سے طاقت ور جماعت کے طور پر ابھری ہے۔

اُن کے بقول یہی لوگ جنہوں نے شمولیت کا اعلان کیا یہ سابق صدر پرویز مشرف کے ہمراہ تھے اس کے بعد دوربارہ مسلم لیگ کا حصہ بننے، پھر انہی سیاسی شخصیات نے مل کر 'باپ' بنائی اور اب یہ دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو رہے ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے نومنتخب صدر خالد حسین مگسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات میں سیاسی اتحاد کا فیصلہ کیا ہے اور فریقین حکومت بنانے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کی بہت سی اہم سیاسی شخصیات نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا ہے جو کہ وقتی طور پر پارٹی کے لیے نقصان کا باعث ہے تاہم بلوچستان عوامی پارٹی اس خلا کو پر کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے اور امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب بھی ہوں گے۔

منگل کو نواز شریف نے بلوچستان کی بڑی سیاسی جماعتوں اور قائدین سے کوئٹہ میں ملاقاتیں بھی کیں۔ ملاقات میں بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور 'پی کے میپ' کے قائدین شریک ہوئے۔

فورم

XS
SM
MD
LG