|
ایک سال قبل شروع ہونے والی غزہ جنگ کے شعلے جہاں مشرق وسطی کے کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں وہیں جنوبی ایشیا کی دو بڑے ملک بھارت اور پاکستان بھی اس کے اثرات سے کئی حوالوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
بھارت اور پاکستان ان ممالک میں سے ہیں جو اسرائیل اور فلسطینی تنازعہ میں فلسطینیوں کے حقوق کے شروع ہی سے علم بردار رہے ہیں اور دونوں نے اس معاملے پر حمایت کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ سمجھا ہے۔
تاہم، مبصرین کے مطابق، عسکریت پسند تنظیم حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے اسرائیل کے تباہ کن ملٹری ردعمل سے پیدا ہونے والی انسانی بحران اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے پیش نظر نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کی اعلی قیادت نے کوئی مضبوط سفارتی حمکت عملی نہیں اپنائی۔
بھارت سیاسی اور سفارتی سطح پر کس کا ساتھ دے رہا ہے؟
سیاسی امور کے ماہر بھارتی نژاد امریکی پروفیسر ڈاکٹر مقتدر خان کے مطابق بھارت روایت سے ہٹ کر اس جنگ پر اپنی پالیسی میں تبدیلی لایا ہے جو اس کے لیے ملے جلے نتائج لائی ہے۔
یونیورسٹی آف ڈیلاویئر سے منسلک پروفیسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھارت دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جن کے اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں سے قریبی اور باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر دنیا اس معاملے پر کسی ایک فریق کے حق میں موقف رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا، "بھارت کے لیے یہ موقع تھا کہ اسرائیل اور عرب دنیا کے ساتھ کوئی بڑی سفارتی کوشش کرتا اور عالمی اسٹیج پر واضح کرتا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا اہل ہے۔"
"لیکن یہ بات مایوس کن ہے کہ بھارت نے اپنے روایتی اثر و رسوخ کو ترک کر کے اس تنازعہ کے حل کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔"
پروفیسر مقتدر کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیرخارجہ ایس جے شنکر کو بین الاقوامی سطح پر اپنی ملاقاتوں میں اس دیرینہ مسئلے کے حل پر زور دینے کے علاوہ کوئی سفارتی انیشییٹو لینا چاہیے تھا ۔
اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی رہنماؤں سے ملنے کے علاوہ بھارتی حکام حماس کے رہنماوں سے قطر میں مل سکتے تھے اور جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے کوشش کر سکتے تھے۔ لیکن نئی دہلی نے یہ موقع ضائع کردیا۔
"بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرارداد پر نیوٹرل موقف اختیار کیا جس میں اسرائیل سے مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کرنے کے لیے کہا گیا تھا ۔ جس سے یہ پیغام کھل کر دیا گیا کہ اس موقع پر بھارت نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔"
واضح رہے کہ جنرل اسمبلی کے پچھلے ماہ کے ووٹ کے بعد وزیر اعظم مودی نے مشرق وسطی کے تنازعے کے دو ریاستی حل پر زور دیا تھا۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی نے غزہ میں جانی اور مالی نقصان کے باوجود جنگ بندی پر کوئی سفارتی دباؤ نہیں ڈالا جبکہ اس نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے معاملے پر سفارتی کوشش کی ہے۔
پروفیسر مقتدر خان کہتے ہیں کہ بھارت نے اپنی پالیسی کے ذریعہ اپنے مفادات کو آگے بڑھایا ہے۔ نئی دہلی نے اسرائیل کے حق میں پالیسی سے کئی فوائد حاصل کیے ہیں جن میں تل ابیب سے ملٹری انٹیلی جینس اور زراعت کے شعبہ میں جدید ٹیکنالوجی کا حصول شامل ہیں۔ سیاسی اور سفارتی سطح پر ڈاکٹر خان کے مطابق "بھارت نے امریکہ میں پرو اسرائیل لابی کی حمایت بھی حاصل کرلی ہے۔"
پاکستان کی سفارتی اور سیاسی کوشش کیسی رہیں؟
پاکستان اسلامی دنیا کا اہم ملک اور فلسطینی حقوق کا بڑا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے معاملے پر اسلام آباد کی سفارتی اور سیاسی کوششیں غیر موثر رہی ہیں۔
مبصرین کے مطابق اقوام متحدہ کے مختلف فورمز پر تو پاکستان نے کھل کر فلسطینی حقوق کی بات کی ہے لیکن سیاسی سطح پر اسلام آباد نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جسے جنگ بندی اور امن کی جانب ایک کوشش سمجھا جا سکے۔
جنوبی ایشیا، مشرق وسطی کے امور کے ماہر جہانگیر خٹک نے وائس آف امرکہ کو بتایا کہ پاکستانی قیادت کے غیر موثر ہونے کی وجہ ملک کا اندرونی عدم استحکام ہے۔
"پاکستان اس وقت کئی مسائل میں الجھا ہوا ہے جس میں سیاسی عدم استحکام اور ایک کمزور معیشت سر فہرست ہیں۔"
اپنے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے جہانگیر خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان کااپنی معیشت کی بدحالی کے باعث دوسرے ملکوں پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے۔
"میں تو یہ بھی کہوں گا کہ گھمبیر اندرونی مسائل کی وجہ سے کمزور ہوتا پاکستان عالمی سطح پر بڑی حد تک تنہائی کا شکار رہا ہے اور اس کا سیاسی اثر ورسوخ بہت کم ہو گیا ہے حالانکہ اس کے مشرق وسطی سے بڑے مفادات وابستہ ہیں۔"
کیا بھارت اور پاکستان وسیع تر جنگ کے اقتصادی اثرات سے نمٹ سکتے ہیں؟
خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق اگر جنگ غزہ، لبنان اور یمن کے بعد تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال اور سمندری تجارتی راستوں کے اسٹریٹجگ محل وقوع رکھنے والے ایران تک پھیلتی ہے تو اس کے معاشی اور اقتصادی تعلقات سے دنیا کے کچھ ہی ممالک محفوظ رہ سکیں گے۔
اقتصادی شعبے میں دیکھا جائے تو ڈاکٹر مقتدر خان کے مطابق بھارت نے گزشتہ کچھ سالوں میں اپنی معیشت کو مضبوط کرنے اور اقتصادی ترقی میں تنوع لانے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔
مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ بھارت تیل در آمد کرنے کے لیے صرف عرب ملکوں یا ایران پر انحصار نہیں کرتا بلکہ وہ روس سے بھی تیل خریدتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حتی کہ بھارت خام تیل خرید کر اور اسے اپنی آئل ریفائنریوں میں صاف کرکے خلیجی اور یورپی ملکوں کے علاوہ امریکہ کو بھی برآمد کرتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایران پر حملے کی صورت میں بھارتی معیشت کو شدید نقصان کا خطرہ ہے کیو نکہ دسیوں لاکھ بھارتی شہری خلیجی ملکوں میں تارکین وطن کی حیثت سے روزگار کے مواقع سے مستفید ہوتے ہیں اور بہت سے بھارتی مشرق وسطی میں کاروبار بھی کرتے ہیں۔
"تاریخ بتاتی ہے کہ خلیجی جنگ کی صورت میں بھارتی تارکین وطن کی واپسی معیشت کے لیے خطرناک ہوگی۔"
جہانگیر خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کی تقریباً 950 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے ایران اسرائیل جنگ کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
"اسرائیل اور ایران کے براہ راست تصادم کے پا کستان پر بڑیے منفی جیو پولیٹکل اور جیو اکنامک اثرات ہوں گے۔"
نیویارک میں میڈیا افیئرز پر کام کرنے والے خٹک کہتے ہیں کہ ترسیلات میں کمی پاکستانی اقتصادی ترقی اور اس کی معیشت کے لیے بڑا جھٹکا ہوگی جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔
دنیا بھر میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ پاکستانی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، قطر اور عمان میں روزگار سے وابستہ ہے۔ یہ تارکین پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت کے لیے اربوں ڈالر کی ترسیلات کے ذریعہ اہم سہارا بنتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ ایسی جنگ کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے کیوں کہ ایران کے پاس واقع آبنائےہرمز تیل کی عالمی تجارت کا ایک کلیدی راستہ ہے اور پاکستان توانائی کے مسائل میں پہلے ہی گھرا ہوا ہے۔ لہذا تیل کی قیمت میں اضافہ پاکستانی معیشت کے لیے بہت نقصان دہ ہوگا۔
پہلے ہی، وہ کہتے ہیں، خطے میں جنگی شاخسانے کی صورت میں تجارتی بحری جہازوں پر حملوں کی وجہ سے اشیا کی ترسیل پر انشورنس کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے اور پاکستان کو برآمدات پر زیادہ پیسہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔
مزید یہ کہ خطے میں عدم تحفظ پاکستان کے سی پیک جیسے بڑے منصوبوں پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ جہانگیر خٹک کے مطابق پاکستان کو ایرانی مہاجرین کے سرحد کے پار آنے سے عسکریت پسندی اور فرقہ وارانہ سوچ کے مختلف پہلووں سے بھی نبرد آزماہونا پڑ سکتا ہے۔
فورم