بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے مذہبی تہوار درگا پوجا کے دوران مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان مذہبی بنیادوں پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک صورتِ حال کو قابو میں لانے پر زور دے رہے ہیں۔ تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان واقعات سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں دراڑ پڑ سکتی ہے۔
بعض حلقے ان واقعات کو بھارت میں حکمراں جماعت کے طرزِ سیاست اور بھارت میں موجود اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف مبینہ امتیازی سلوک سے جوڑ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر اس افواہ کے بعد کہ درگا پوجا کے ایک پنڈال میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی مبینہ طور پر بے حرمتی کی گئی، ملک کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ہفتے تشدد پھوٹ پڑا تھا جس میں کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں ہندو برادری کے لوگ بھی شامل تھے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ مبینہ طور پر جو امتیازی سلوک ہو رہا ہے اس کا اثر ہمسایہ ملکوں کی اقلیت پر بھی پڑ رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت کے مذہبی تہوار کو ہدف بنایا گیا۔
بھارت کو حسینہ واجد کا انتباہ
بھارت کی وزراتِ خارجہ نے تشدد پر قابو پانے کے لیے بنگلہ دیش کی انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی فوری کارروائیوں کی ستائش کی ہے۔ لیکن وہاں کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں ہونے والے تشدد کے حوالے سے بھارت کو متنبہ کیا ہے۔
شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ فرقہ واریت سے نمٹنے میں ہمارے پڑوسی ملک (بھارت) کو بھی تعاون کرنا چاہیے۔ اس کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہاں ایسا کچھ نہ ہو جس کا اثر ہمارے ملک اور یہاں کی ہندو برادری پر پڑے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم کی جانب سے پہلی بار ایسا بیان سامنے آیا ہے۔
مبصرین کے مطابق بھارت نے ان واقعات پر جو ردِعمل ظاہر کیا وہ شیخ حسینہ کے بیان کے بالکل برعکس ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک نیوز کانفرنس میں فوری طور پر صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے بنگلہ دیش انتظامیہ کی ستائش کی۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں تعینات کی گئی ہیں اور درگا پوجا کی تقریبات وہاں کی حکومت اور عوام کے بڑے طبقے کی حمایت کے ساتھ منعقد ہوئیں۔
کیا باہمی رشتوں کی نوعیت بدل رہی ہے؟
مبصرین کے مطابق حالانکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بہت اچھے رشتے ہیں لیکن شیخ حسینہ کے اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ شاید اب باہمی رشتوں کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے۔
سینئر تجزیہ کار گوتم لاہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بنگلہ دیش کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جس سے بھارت کے بہت اچھے رشتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم شیخ حسینہ واجد اور نریندر مودی میں بھی اچھے تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بنگلہ دیش کو بھارت سے کچھ شکایت ہے یا اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے تو شیخ حسینہ کو چاہیے کہ وہ دو طرفہ میکنزم میں اس معاملے کو اٹھائیں۔
شہریت ترمیمی بل کا بنگلہ دیش پر اثر
گوتم لاہری کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت کی جانب سے منظور کردہ شہریت کے متنازع قانون سی اے اے اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے سلسلے میں بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے بنگلہ دیش سمجھتا ہے کہ اس کا اثر اس پر بھی پڑ سکتا ہے۔
ان کے مطابق بنگلہ دیش کے عوام کی اکثریت بھی ایسا سمجھتی ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کا اس پر اثر پڑے گا۔ حالانکہ جب شیخ حسینہ بھارت آئی تھیں تو انہوں نے اس معاملے کو اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے سامنے اٹھایا تھا اور مودی نے ان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ سی اے اے اور این آر سی کا معاملہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اس کا اثر بنگلہ دیش پر نہیں پڑے گا۔
وزیرِ اعظم کی اس یقین دہانی کے باوجود بنگلہ دیش میں سی اے اے اور این آر سی پر اضطراب پایا جاتا ہے۔ خود شیخ حسینہ نے بھی گزشتہ برس سی اے اے پر نکتہ چینی کی تھی۔ جب کہ 2019 میں حکومت کے ایک وزیر نے اس پر اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔
مبصرین کے مطابق 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں امت شاہ نے مغربی بنگال میں اپنی تقریروں میں الزام عائد کیا تھا کہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی درانداز بھارت میں آ رہے ہیں۔ انہوں نے ان لوگوں کو ’دیمک‘ قرار دیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق ان کے اس بیان پر بنگلہ دیش میں ناراضگی ظاہر کی گئی تھی۔
'حسینہ کا بیان چونکا دینے والا ہے'
ایک اور تجزیہ کار انجم نعیم کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ کا مذکورہ بیان چونکا دینے والا ہے۔ اس سے بہت سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بھارتی وزارتِ خارجہ کا جو بیان آیا ہے وہ بالکل الگ ہے۔
ان کے مطابق وزراتِ خارجہ کے بیان سے یہ مفہوم نکالا جا سکتا ہے کہ بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے رشتوں کو خراب نہیں کرنا چاہتا۔ کیونکہ وہ واحد ہمسایہ ملک ہے جس سے بھارت کے رشتے اچھے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے تشدد کے سلسلے میں بی جے پی رہنماؤں اور وزارتِ خارجہ کے بیانات میں بھی تضاد ہے۔
وہ مغربی بنگال میں حزبِ اختلاف کے قائد اور بی جے پی رہنما شبھیندو ادھیکاری کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے مودی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہونے والے حملوں کا معاملہ شیخ حسینہ حکومت کے سامنے اٹھائیں۔
آسام بی جے پی کے نائب صدر اور رکنِ پارلیمنٹ راج دیپ رائے نے بھی ایسا ہی بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ بھارتی حکومت بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مبینہ مظالم اور مندروں پر حملے کا معاملہ وہاں کی حکومت کے سامنے رکھے۔
اسی طرح بی جے پی کے ترجمان سمک بھٹا چاریہ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اکا دکا واقعات نہیں ہیں بلکہ یہ اقلیتوں کی نسلی تطہیر کا معاملہ ہے۔
ان کے مطابق بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی دراندازوں کی وجہ سے بنگال میں آبادی کا تناسب بگڑ رہا ہے۔ مرکزی حکومت اور بنگال کے عوام کو اس سے باخبر رہنا چاہیے۔
کیا بی جے پی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے؟
یاد رہے کہ بی جے پی آئی ٹی سیل کے انچارج امت مالویہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جس طرح بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی مذہبی آزادی کو دبایا جا رہا ہے اور قصور واروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے، اس سے سی اے اے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
گوتم لاہری ان کے اس بیان پر کہتے ہیں کہ بی جے پی ایسے ہی جذباتی معاملات کے انتظار میں رہتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس قسم کے ایشوز سے وہ سیاسی فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اگر مغربی بنگال کے بی جے پی رہنما ایسا سوچتے ہیں تو وہ غلط فہمی کے شکار ہیں۔ وہ کچھ بھی کر لیں بنگال میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
خیال رہے کہ مغربی بنگال میں 30 اکتوبر کو چار اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں اور مبصرین کے مطابق بی جے پی بنگلہ دیش کے واقعات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
گوتم لاہری کے مطابق امت مالویہ نے بنگلہ دیش میں ہونے والے تشدد کو سی اے اے سے جوڑنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے 2018 میں سی اے اے منظور کیا تھا لیکن ابھی تک اس کے ضابطے ہی نہیں بنے۔ حکومت بار بار وقت مانگتی ہے۔ مغربی بنگال کے لوگ ایسے جذباتی ایشوز پر ووٹ نہیں دیں گے بلکہ حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر دیں گے۔