گزشتہ تین ماہ میں دنیا بھر میں اسرائیل حماس جنگ کے خلاف مظاہروں میں بینرز، ٹی شرٹس، غباروں اور سوشل میڈیا پوسٹس میں ایک تصویر ابھر کر سامنے آئی ہے اور وہ ہے تربوز ۔
اوپر تصویر میں کراچی میں سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار میں کٹے ہوئے تربوز کی تکونی قاش کے علامتی بینر کے ساتھ نعرے لگا تے ہوئی نظر آئیں۔
کٹے ہوئے تربوز کے سرخ رنگ کے گودے، سبز، سفید چھلکے اور سیاہ بیج کے رنگ وہی رنگ ہیں جو فلسطینی پرچم کے ہیں۔
نیویارک سے تل ابیب اور کراچی سے بلغراد تک یہ پھل یک جہتی کی ایک علامت بن گیا ہے اور ان تمام سرگرم کارکنوں کو اکٹھا کر رہا ہے جو ایک جیسی زبان نہیں بولتے، ایک جیسا کلچر یا مذہب نہیں رکھتے لیکن ایک مشترکہ نصب العین رکھتے ہیں۔
یہ پھل مغربی کنارے اور غزہ میں احتجاج کی ایک علامت بننے کے بعد سے آن لائن فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کی عالمی علامت کیسے بنا ؟
تاریخی پس منظر
مشرق وسطی کی 1967 کی جنگ کے بعد اسرائیل کی حکومت نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی پرچم کی نمائش پر پکڑ دھکڑ شروع کی۔ رملہ میں 1980 میں فوج نے تین فنکاروں کے زیر انتظام ایک گیلری کو اس لیے بند کر دیا کہ انہوں نے پولیٹیکل آرٹ اور اپنے فن پاروں کو فلسطینی پرچم کے سرخ، سبز، سیاہ اور سفید رنگوں میں پیش کیا تھا۔
ان تینوں فنکاروں کو بعد میں اسرائیل کے ایک افسر نے طلب کیا۔ آرٹسٹ اور نمائش کے منتظم، سلیمان منصور کے مطابق، ایک اسرائیلی افسر نے ان سے کہا،" فوج کی اجازت کے بغیر کسی نمائش کے انعقاد پر پابندی عائد ہے، اور دوسری بات یہ کہ فلسطینی پرچم کے رنگوں کو پینٹ کرنے کی بھی ممانعت ہے۔"
اس کے بعد سے لوگوں نے مظاہروں میں اس پھل کو لہرانا شروع کر دیا ۔
منصور نے گزشتہ ہفتے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ،" افسر نے تربوز کی تصویر کشی کو آرٹ کی ایک ایسی مثال قرار دیا جس سے فوج کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔"
مصنف، مہدی صباغ نے لکھا ہے کہ ایسے نوجوانوں کی کہانیاں موجود ہیں جنہوں نے فوج کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تربوز کے کٹے ہوئے ٹکڑوں کے ساتھ سڑکوں پر پیدل چل کر اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتاری کا خطرہ مول لیا۔ انہوں نے لکھا، جب میں تربوز دیکھتا ہوں تو میں اپنے لوگوں کے اٹوٹ جذبے کے بارے میں سوچتا ہوں۔
سلیمان منصور نے کہا،" 90 کی دہائی کے وسط میں جب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان عبوری معاہدے ہونے سے ایک سال قبل موجودہ قوم پرست اسرائیلی حکومت کے اقتدار سنبھالنے تک،فلسطینی پرچم بلند کرنا ایک بڑے مسئلے کے طور پر پس پشت چلا گیا ۔ پھر 30 سال کے بعد، یہ ایک بار پھر ایک قومی علامت بن گیا۔"
تربوز کےبیج سب سے اہم علامت ہیں
تربوز کی تصویر یک جہتی کی ایک علامت بننے ایک اور وجہ اس کے بیج بھی ہیں۔ سرگرم کارکنوں میں ایک کہاوت مقبول ہے, جسے عام طور پر یونان کے ایک شاعر، ڈائنوس کرسچناپولس سے منسوب کیا جاتا ہے،” وہ ہمیں دفن کرنا چاہتے تھے ؛ وہ نہیں جانتے تھے کہ ہم بیج ہیں۔”
جنگ بندی کے خاتمے اور ایڈز کے خاتمے کی جدو جہد سے متعلق تنظیموں کے اتحاد کے تیار کردہ تربوز کی تکونی قاش کی علامتی تصویر پر مبنی نئے ڈیزائن کے خالق آرٹسٹ، شان ایسکارسیگا نے تربوز کے بیج کی طاقت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ،" آپ ایک تربوز کو کچل سکتے ہیں۔ آپ اس کو تباہ کر سکتے ہیں لیکن بیجوں کو کچل دینا مشکل ہوتا ہے۔"
یہ واقعی ایک بڑی طاقت ہے کہ اتنی چھوٹی سے چیز سے زندگی پیدا ہو سکے اور وہ اتنی مضبوط ہو اور یہ کہ وہ اتنی آسانی سے پھیل سکے۔
آزادی کی جدوجہد، ایڈز کے خاتمے کی مہم اور تربوز کی تکونی قاش
امریکہ میں ایک تنظیم جیوئش وائس فار پیس نے گزشتہ ماہ غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے کے لیے تربوز کی ایک بڑی تصویر کو استعمال کیا تھا۔ گروپ نے ایڈز کے سد باب کے علمبردار تاریخی گروپ کی مہم،" ACT UP "،کی اک تکونی علامت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیویارک میں فلسطینی پرچم کے رنگوں اور مثلث کٹے ہوئے تربوزوں کے بینرز کے ساتھ مظاہرہ کیا۔
جیسن روزن برگ نے جو دونوں تنظیموں کے رکن ہیں کہا کہ ہماری نئی تصویر یہ دکھاتی ہے کہ آزادی کے لیے ہماری جدوجہد اور ایڈز کی وبا کے خاتمے کے لیے ہماری جدوجہد بنیادی طور پر فلسطینی جدوجہد سے منسلک ہے۔
تربوز ایموجی اور دوسری علامات، تل ابیب کی ٹیکسیوں پر تربو ز کے اسٹکر
ایک سال قبل اسرائیل کے قومی سلامتی کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر اتمار بن گویر نے عوامی مقامات پر فلسطینی پرچموں پر پابندی لگا دی۔
اس کوشش کو سخت مخالفت کا سامنا ہوا۔ عرب اور یہودی اسرائیلیوں کے سرگرم گروپ , Zazim نے تل ابیب کی ٹیکسیوں پر تربوز کے بڑے بڑے اسٹکرز چسپاں کیے جن پر لکھا تھا،”یہ فلسطینی پرچم نہیں ہے۔“
تنظیم نے ایک تحریری بیان میں کہا ،”حکومت کے لیے ہمارا پیغام واضح ہے، ہم ہمیشہ کسی بھی مضحکہ خیز پابندی کو بائی پاس کرنے کا کوئی طریقہ تلاش کر لیں گے اور ہم آزادی اظہار اور جمہوریت کے لیے جدو جہد ختم نہیں کریں گے ۔۔ خواہ اس میں’ پرائڈ فلیگ‘ یا ’فلسطینی فلیگ ‘شامل ہو ۔"
کچھ لوگ پرچم کے رنگ اپنانے کو لازمی طور پر کسی ریاست سے نہں، بلکہ آزادی اور مساوات کے لیے جدو جہد سے تعبیر کرتے ہیں۔
کنگ کالج لندن میں مشرق وسطیٰ کے امور کی ایک ماہر مائسون سکیرہ کا کہنا ہے، "جب بات فلسطین کی ہو تو یہ نو آباد لوگوں کا ایک پرچم ہے، جنہوں نے کبھی آزادی نہیں دیکھی۔ اور کیوں کہ اس پر پابندی عائد ہے، اس لیے یہ قوم پرستی سے زیادہ مزاحمت کی ایک علامت بن گیا ہے ۔"
بیج کی تصویر
تربوز کی تصویر کو یک جہتی کی ایک علامت کے طور پر استعمال کی ایک اور وجہ اس کے بیج بھی ہیں۔ سرگرم کارکنوں میں ایک کہاوت مقبول ہے ,جسے عام طور پر یونان کے ایک شاعر ، ڈائنوس کرسچناپولس سے منسوب کیا جاتا ہے، اور وہ یہ کہ ،” وہ ہمیں دفن کرنا چاہتے تھے؛ وہ نہیں جانتے تھے کہ ہم بیج ہیں ۔”
غزہ کی جنگ
سات اکتوبر کو اسرائیل پرحماس کے حملے کے بعد غزہ پر اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق 24 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
دنیا بھر میں سرگرم کارکن امن اور مستقل جنگ بندی کے مطالبے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کو کچلنے سے قبل جنگ بند کر دینے سے ان عسکریت پسندوں کو کامیابی حاصل ہو گی جنہوں نے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملہ کر کے 1200 لوگوں کو ہلاک اور لگ بھگ 240 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
جنگ بندی کے خاتمے اور ایڈز کے خاتمے کی جدو جہد سے متعلق تنظیموں کے اتحاد کے تیار کردہ اس ڈیزائن کے خالق، شان ایسکارسیگا نے کہا کہ،" فنکار ہمیشہ انقلاب، مزاحمت اور سیاست میں مختلف درجوں کے ساتھ پیش پیش رہے ہیں۔ ہم بھی یہ ہی کچھ کر رہے ہیں۔ ہم اس مشہور علامت کو اس لیے استعمال کر رہے ہیں کیوں کہ ایڈز کی بیماری ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور جنگ بھی ظاہر ہے ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ۔"
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیاہے۔
فورم