اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھارت، بنگلہ دیش اور چین سمیت کئی ایشیائی ملکوں میں کرونا بحران کے دوران مختلف مقامات پر آزادی رائے صلب کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن کی سربراہ مشیل بیخلت نے ایک بیان میں کہا ہے کے ان ممالک میں خیالات کے اظہار اور تنقید یا مبینہ غلط اطلاعات پھیلانے پر پابندیاں سخت کی گئی ہیں اور لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ کمیشن کے مطابق، بہت سے ملکوں میں پہلے ہی سے آن لائن میڈیا کے کام کرنے یا مبینہ دروغ گوئی پر مبنی خبروں کو روکنے کے ''ایسے قوانین لاگو ہیں جو باعثِ تشویش ہیں''۔
بقول ان کے، ان قوانین کو خیالات کے جائز اظہار، عوامی مکالمے، حکومتی پالیسی پر تنقید روکنے اور آزادی راہے پر قدغن لگانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
چین کے حوالے سے انسانی حقوق کے کمیشن نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق، کووڈ نائنٹین کے متعلق مواد چھاپنے یا حکومتی کارکردگی پر تنقید کرنے کی بنا پر درجنوں طبی ماہرین، اساتذہ اور عام شہریوں کو حراست میں لیا گیا اور کچھ کے خلاف عدالتی کارروائی بھی کی گئی۔ کالج سے تعلیم یافتہ دو چینی نوجوانوں کے خلاف اپریل میں مقدمہ کیا گیا، کیونکہ انہوں نے چین میں کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے متعلق ایک آن لائن ڈیٹا بیس بنایا تھا۔
بھارت میں آزادی رائے کو درپیش چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے، انسانی حقوق کے ہائی کمیشن نے کہا کہ ''وہاں کے صحافیوں اور کم از کم ایک ڈاکٹر کےخلاف حکام کی کوڈ نائنٹین سے نمٹنے کی کارکردگی پر تنقید کے معاملے پر الزامات عائد کیے گئے ہیں''۔
تاہم، بھارت اور چین کے حکام اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں اور اپنی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ چین کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حال ہی میں ہانگ کانگ میں کی گئی کارروائیوں پر تنقید کی اور کہا کہ چین نے اپنے قومی سلامتی کے قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے، لوگوں کی آزادی پر قدغن لگائی ہے۔
وائس آف امریکہ نے آزادی رائے اور کرونا وائرس سے بچاؤ کے مابین تعلق پر بات کرنے کے لیے جب ماہرین سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ صحیح اطلاعات تک رسائی انسانی جان کا مسئلہ ہے۔
پروفیسر سحر خامس یونیورسٹی آف میری لینڈ سے منسلک ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس موذی مرض کے دور میں صحیح اور درست اطلاعات تک رسائی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
انھوں نے چین کے بارے میں کہا کہ اس نے اطلاعات کو فلٹر کرنے کی ایک دیوار، جسے عام طور پر فائر وال کہا جاتا ہے، بنا رکھی ہے۔ اسی طرح کئی ممالک جن میں مصر بھی شامل ہے، بین الاقوامی صحافیوں کو حقیقی تصویر دکھانے پر اپنے ملک سے نکال دیتے ہیں۔
ڈاکٹر خامس نے کہا، اگرچہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی تازہ ترین رپورٹ ایک اچھا اقدام ہے، لیکن ایسا بہت پہلے ہونا چاہیے تھا، تاکہ اس بحران کے آغاز سے ہی تمام ممالک کو خبردار کیا جاتا کہ وہ درست اطلاعات کی راہ میں رکاوٹیں حائل نہ ہونے دیں۔
کمیشن کے مطابق خطے میں بنگلہ دیش میں بھی درجنوں افراد کے خلاف ڈیجیٹل سکیورٹی ایکٹ کے تحت مقدمات دائر کیے گئے کہ انہوں نے مبینہ طور پر گزشتہ تین ماہ میں غلط اطلاعات پھیلائے یا حکومتی اقدامات پر تنقید کی۔
انسانی حقوق کے علمبردار اور مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کو کووڈ نائنٹین پر اپنی آرا کا اظہار کرنے پر ہراساں کیا گیا۔ ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں صحافیوں پر معلومات کا مطالبہ کرنے کے جرم میں حملے کیے گئے۔
بھارت، چین اور بنگلہ دیش کے علاوہ انسانی حقوق کے کمیشن نے جن ممالک میں کووڈ نائینٹین کے دوران آزادی رائے پر پابندیوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے، ان میں کمبوڈیا، انڈونیشیا، ملیشیا، میانمار، نیپال، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہیں۔
اپنے بیان میں، مشیل بیخلت نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ کسی بھی قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے اس کی قانونی حیثیت، ضرورت، تناسب اور عوامی بہتری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مداخلت کا کم سے کم انداز اختیار کریں۔