ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آزادی اظہار کے عالمی دن کے موقع پر مصر میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز پر حملوں کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ وائس آف امریکہ کے نامہ نگار فم روبن سن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مصر میں میڈیا پر یہ حملہ نہ صرف صحافیوں کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہے بلکہ آزادانہ اطلاعات کے حصول کے عام آدمی کے حق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اظہار کی آزادی کے حق کی ضمانت قابل بھروسہ اطلاعات تک رسائی، خاص طور پر کرونا وائرس کی ایمرجینسی کے دوران اور بھی زیادہ اہم ہے۔ تاکہ عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکے اور غلط اطلاعات سے محفوظ رہا جا سکے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ مصری سیکیورٹی فورسز نے مارچ میں ایک صحافی کو گرفتار کیا تھا، کیونکہ اس نے اپنے ذاتی فیس بک پیج پر ملک میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والوں کے جو اعداد و شمار فراہم کئے گئے تھے، وہ ان کی دانست میں صحیح نہیں تھے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اسے تقریباً ایک ماہ تک کسی نامعلوم مقام پر رکھا گیا، جہاں باہر کی دنیا سے اس کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ بعد ازاں اس پر غلط افواہیں پھیلانے اور دہشت گرد تنظیم میں شمولیت کے الزامات عائد کئے گئے۔
ایمنسٹی کے مڈل ایسٹ اور نارتھ افریقہ ریسرچ ایڈوکیسی کے ڈائریکٹر فلپ لوتھر کا کہنا ہے کہ 2016 سے مصر میں حکام نے درجنوں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو محض اپنا کام انجام دینے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے جرم میں ہدف بنایا ہوا ہے۔
مصری حکام کی جانب سے فوری طور سے اس پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
لیکن امریکہ کی بفلو یونیورسٹی کے پروفیسر فیضان الحق کا کہنا ہے کہ عرب اسپرنگ نے مصر سمیت دوسری عرب حکومتوں کو خوفزدہ اور محتاط کر دیا ہے اور آزادی اظہار کے سبب انہیں اپنا اقتدار خطرے میں نظر آتا ہے۔ اس لئے وہ خبروں کی ترسیل کے ہر ذریعے کو پابند رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی کے ملکوں کی حکومتیں یوں تو زیادہ تر معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف انداز فکر رکھتی ہیں، لیکن اظہار کی آزادی کے سلسلے میں وہ سب اس کے خلاف ہیں اور اس حوالے سے ایک مشترکہ نصب العین رکھتی ہیں۔
لیکن وہ تاریخ کے اس سبق کو بھول جاتی ہیں کہ آزادیوں کا سلب کیا جانا ان کی حکومتوں کی جڑوں کو کھوکلا کر دیتا ہے اور اظہار کی آزادی ان کی حکومتوں کو دوام بخشتی ہے۔